ترتیب لغات کا کام ایک ایسے براعظم کی سیر وسیاحت کی حیثیت رکھتا ہے جس میں قدم قدم پر عجائبات کے نمائش کدے واقع ہوں اور دوران سیر ایسے تنگ وتاریک مگر دلنواز راستوں سے گزر ہو جن کے ہر معنی پیچ وخم ہر موڑ پرفکرونظر کی دعوت دیں. لغت کا مطالعہ درحقیقت انسانی تفکرکی تدریجی ترقی کا مشاہدہ کرنا اورجائزہ لینا ہے، کیونکہ ایک اعتبار سے تعلق اور فکر ایک ہی عمل کے دو نام ہیں. جب ہم سوچتے ہیں توگویا بولتے ہیں اور جب بولتے ہیں توسوچتے ہیں. زیر نظر لغت ارددوزبان کی عمر طبیعی کے گزشتہ ساڑھے سات سو سال کی فکر (نطق یعنی لغت) پر محیط ہے. الفاظ کے استعمالات اوران استعمالات میں عہد بہ عہد جوتبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اورکسی لفظ کے بطن سے جوالفاظ (مشتقات) پیدا ہوئے ہیں، ان پرغورکرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اجتماعی شعور میں بتدریج کیا کیا انقلابات رونما ہوے ہیں، جن کی آئینہ داری اردو زبان کی تاریخی نشوونما کرتی ہے. دنیا کی تمام اہم زبانوں میں اگرچہ اردو سب سے کم عمرزبان ہے، لیکن بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال! امر واقع یہ ہے کہ یہ نوخیز زبان (جس کی لغت کا ذخیرہ تقریباً تیرہویں صدی کے اوائل سے بیسویں صدی تک کی مدت پر مشتمل ہے) ثروت مندی کے لحاظ سے دنیا کی بڑی سے بڑی زبانوں کا مقابلہ کرسکتی ہے. اس لغت کے مرتبین نے تقریباً آٹھ صدی کے ذخیرہ ادب کوکھنگال کر ایسے ایسے اسالیب بیان اور وسائل اظہار سے لطف اٹھایا ہے جن کا اظہار واحاطہ لفظوں کی چار دیواری میں نہیں کیا جاسکتا. لفظ جامد نہیں. نموپذیرہوتے ہیں اور معاشرے کے ضرر احساس کی تبدیل کے ساتھ ساتھ ان کے معانی کی نئی نئی سمتیں واضح ہوتی چلی جاتی ہیں، مثلاً ”قوم“ کہ یہ لفظ آج سے دو سو سال پہلے کچھ اور معنی میں استعمال ہوتا تھا. لیکن اجتماعی شعور کی ترقی کے ساتھ اس کے معنی میں وسعت بروسعت پیدا ہوتی چلی گئی . اس لغت میں الفاظ کے ان استعمالات کی متعدد عہد بہ عہد مثالیں پیش کی گئی ہیں. کتاب کو بہترین رفیق کہا گیا ہے؛ لغت رفیق سفرہی نہیں، خضرکارواں کی حیثیت بھی رکھتی ہے، کیونکہ لغت کا مطالعہ قومی تاریخ کے ایسے شعبوں کی طرف ہماری ر ہ نمائی کرتا ہے جن کی طرف عام مورخین کے نہ قدم اٹھتے ہیں، نہ آنکھ! لغت نگاری کی مشکلات،، مگر لذت آفریں مشکلات، کا اندازہ صررف وہ لوگ کرسکتے ہیں جنہیں اس مرحلۂ مرد افگن سے سابقہ پڑاہے.
میں ایک لغت نگارکی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں کہ اس لغت کی تدوین کے کام میں بعض اوقات مجھ پر ایک عجیب لطف انگیز سرشاری طاری ہوجاتی تھی، اور یہ سرشاری مجھے معانی ومطالب کی ایسی دنیا میں پہنچادیتی تھی جس کی تصویر کشی نثر میں نہیں، ایسی نظم ہی کے ذریعے ممکن ہے جو آمد ہی آمد ہو اورجس میں آورد کا شائبہ تک نہ ہو.
اردو لغت کی انگلی پکڑ کر جو بھی تاریخ کی دنیا میں سفر بازگشت کرے گاوہ نئے نئے لوگوں، نئے نئے افکار ونظریات سے لطف اندوز ہوگا. کبھی کبھی اسے ایسا محسوس ہوگا جیسے وہ بھی تیرہویں صدی عیسوی کا ایک فرد ہے اور بلا تکلف ایک ایسے معاشرے میں سرگرم سفر جہاں ایک زبان کی تخلیق آہستہ آہستہ، غیرشعوری طورپر ہورہی ہے اور مختلف زبانوں کےاتصال وصال اور تصادم وتزاحم سے ایک نئی بولی وجود میں آرہی ہے. اس لغت کی داغ بیل کب اورکس طرح پڑی اور اس کی تکمیل کے لیے مرحوم عترت حسین زبیری کی ابتدائی جدوجہد سے لے کرجلد اول کی طباعت اور باقی بارہ جلدوں کی تسوید تک ہمیں کن کن مرحلوں سے گزرنا پڑا اس کا مختصر خاکہ صدر ادارہ نے اپنے تعارف میں پیش کردیاہے. اب اس کے بعد مجھے اس مقام پر صرف چند باتوں پر روشنی ڈالنا ہے جو مدیرکے دائرہ کار اور لغات ومعانی اور امثلہ واشتقاق کے طریق اندراج واملا اور تسو ید طباعت سے تعلق رکھتی ہیں.
سب سے پہلے ایسے الفاظ کے انتخاب کا مرحلہ ہے جولغت بنائے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چنانچہ اس لغت میں اردوکے تمام متداول، متروک، نادرالاستعمال،، مفرد اور مرکب الفاظ، محاورات اورامثال درج کیے گئے ہیں، جن کا ماخذ اردو تصانیف کے علاوہ بعض دوسری زبانوں (فارسی وغیرہ)کی کتابیں بھی ہیں. ان الفاظ میں وہ مفردات ومرکبات بھی شامل ہیں جن میں حسب ذیل خصوصیات میں سے کوئی خصوصیت پائی جاتی ہے: ) ا) دوسری زبانوں کےایسے دخیل الفاظ جو اردوبول چال میں رائج ہیں، یا رائج تھے، یا کم سے کم دو مصنفین نے اپنی تصانیف میں استعمال کیے ہیں. (ب) پاکستانی زبانوں کے وہ الفاظ جو یوں توکسی خاص خطے سے مخصوص ہیں لیکن اردومصنفین کی تحریروں میں ان کے بے تکلف استعمال کی مثالیں موجود ہیں. (ج) وہ اعلام جوہمارے ادب میں کسی خاص مجازی معنی میں مستعمل ہیں، جیسے: ”رستم“ (=بہادر)، ”حاتم“ (=سخی)؛ یا ادبیات میں بطور تلمیح استعمال ہوتے رہے ہیں، جیسے: یوسف، مسیح ،، طُور، اسد اللہ اور امام اعظم، وغیرہ.. (د) وہ مصطلحات جن کا مستعارمنہ اد بیات میں اپنے اصلی یا مجازی معنی میں مستعمل ہے، برخلاف ان کے ایسے مصطلحات کو جواصطلاح کے سوا کسی اور معنی کے لیے ادب اردو میں استعمال نہیں ہوتے، درج لغت نہیں کیاگیا(ایسے مفردات یا مرکبات سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے اصحاب عموماً ان کی تشریح وتفصیل لغت میں نہیں، بلکہ متعلقہ عام یا فن کی خصوصی کتابوں میں تلاش کریں گے). (ہ) لگی بندھی ترکیبیں جن سے مفردات کے معنی میں اضافہ ہوتا ہے، یا جن کے اجزاے ترکیب کا مفہوم علیحدہ علیحدہ مبہم یا ناقص ہے، انہیں اصل لفظ کے بعد تابعات کے طورپر درج کیا گیا ہے، جیسے: ”اب“ کے تحت ”اب کے“ اب تب“ اب جب، اب نہ تب، اب آؤ تو جاؤ کہاں، وغیرہ. (و) سابقے اور لاحقے جو مستقل کلمات نہیں، مگر دوسرے کلموں سے مل کر اپنے اپنے معنی الگ الگ دیتے ہیں، جیسے : ’آن‘(سابقۂ نفی) جو ’ٰاَن بَن‘یا ’اَن جان‘وغیرہ میں مستعمل ہے، یا ”...او“ جو”لگاو اورچاو، وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے. چونکہ مرتبین لغت کا منصب وضع الفاظ نہیں ہے اس لیے لغت میں اپنی طرف سے لفظ یا محاورہ وغیرہ وضع کرنے سے پرہیز کیا گیا ہے اور صرف معلوم الفاظ کے احاطے اوران کی تشریح پراکتفا کی گئی ہے.
(ا) ہر لفظ ترتیب تہجی سے جس مقام پرآتا ہے وہیں درج کیا گیا ہے، اورکسی مادے سے بنے ہوئے سب لفظ ایک سلسلے میں درج نہیں کیے گئے، مثلا.: ”شکل“ کے ذیل میں ”اَشکال،، اِشکال، تشکیل،. مشکلّ“ وغیرہ میں اول االذذکر ددولفظ، ’الف‘کی تقطیع میں ملیں گے، تیسرا لفظ ’ت‘ میں اور چوتھا ’م‘ میں. (ب) جو ترتیب تہجی اختیار کی گئی ہے اس کی تفصیل یہ ہے:’ا‘،آ، ب، بھ، پ، پھ،، ت، تھ،، ٹ، تھ، ث، ج، جھ، چ، چھ، ح، خ، د، دھ،، ڈڈ، ڈھ، ذ، ر، رھ، ڑ، ڑھھ،، ز، ژ، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، ، کھ، گ، گھ، ل،لھ، م، مھ، ن،،نھ، و، ہ، ء، ی ، ے، ان میں سے سب حروف کلمےکے شروع میں نہیں آتے؛ لیکن یہ سب اردو میں مستقل آوازوں کے ترجمان ہیں اور علیحددہ علیحدہ صوتیوں (Phonemes) کی حیثیت رکھتے ہیں، لہٰذا ان میں سے ہرایک کا مجرد حرف کے طورپر اندراج کیاگیا ہے، اس کا خاطرخواہ تعارف کرایا گیا ہے، اور اس کی صوتی وابجدی حیثیت کے علاوہ لسانی (لغوی) حیثیت بھی واضح کی گئی ہے. (ج) ترتیب الفاظ میں بھی مذکورہ بالا حروف تہجی کوعلیحدہ علیحدہ حروف شمارکیا گیا ہے، چنانچہ ”بڑھ“ اور”بڑھ“ وغیرہ ”بڑے“ اور ”پڑے“ وغیرہ کے بعد درج ہوئے ہیں، یعنی جب ”ب ڑ “ اور ”پ ڑ“ کے تمام الفاظ ختم ہوگئے تو”ب ڑ ھ“ اور ”پ ڑ ھ“کے الفاظ شرووع ہوئے ہیں. (د) ترتیب تہجی کے ساتھ ساتھ اعرابی ترتیب کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے. چنانچہ فتحہ سب سے پہلے ہے، اس کے بعد کسرہ اورآخرمیں پیش، یعنی پہلے ”اْن“ درج ہوا ہے، پھر ”اِن“: اور پھر ”اُن“ اسی طرح واولین کو واومعروف ومجہول پراورواو معروف کوواو مجہول پر نیزیا ے لین کو یا ے معروف ومجہول پراور یا ے معروف کو یا ے مجہول پر تقدم دیا گیا ہے، یعنی پہلے ”گول“ درج ہوا ہے پھر ”گُول“ اور پھر”گول“اسی طرح پہلے ”سَیر، پھر ”سِیر“ اور پھر”سیر“. (ہ) جومختلف المعنی بمشکل الفااظ ایک مادے سے مشتق نہیں انہیں مستقل لغت کے طورپر الگ الگ درج کیا گیا ہے اور امتیاز کے لیے ان کے ساتھ (۱).(۲)، وغیرہ لکھ دیا گیا ہے. مثلاً:’اب‘( = اس وقت ) ’اب ‘(= باپ) اور ’ا ب‘(= چراگاہ)، کو، ا ب (۱)، ’ابر‘کے اندراج کے بعد اس کے تحتی مرکبات اس طرح درج کیے گئے ہیں: ---/آزاری ---/باراں ---/بَہار ---/بَہْمَن (ح) لاحقوں کے اندراج میں لاحقے سے پہلے تین نقطے اس طرح سنائے گئے ہیں: ... وا(دکھاوا، چڑھاوا). ... ائی (لگائی ، بجھائی). یہ نقطے ان کلمات کے جانشین ہیں جو لاحقے سے پہلے لگاکرالفاظ بنائے جاتے ہیں. (ط) ہمزہ جو اکثر عربی اسما کے آخر میں آتا ہے (جیسے : ابتداء ، انتہاء) اسے اصل لغات کے ساتھ درج نہیں کیا گیا: البتہ جہاں املا میں اس کے استعمال کی مثال مل گئی ہے وہاں متبادل شکل کے طورپر، اورجہاں مثال نہیں ملی وہاں اشتقاق میں اصل عربی لفظ ہمزہ کے ساتھ لکھ کر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ہمزہ اس لفظ کا جزو ہے. (ی) اردو کلمات میں جہاں ہمزاہ کی آواز پیدا ہوتی ہے وہاں ہمزہ (’ء‘ لکھا گیا ہے. مثلاً’ کئی ، گئی ،آؤ، رائتہ، آئندہ، ملا، اعلیٰ، اور ’جرأت‘ ویرہ؛ لیکن جس کلمے کے بولنے میں ہمزہ کی آواز پیدا نہیں ہوتی وہ کلمہ ’ی‘ سے درج کیا گیا ہے، جیسے:’کیے، سیے،لیجیے، دیجیے، کہیے، اورہوجیے‘وغیرہ ؛ (ک)’الف‘ یا ’واو‘ پر ختم ہونے والے عربی اور فارسی الفاظ کے مضاف ہونے کی حالت میں جو بڑی ’ے‘ علامت اضافت کے طورپر آتی ہے اس پر ہمزہ نہیں بنایا گیا، جیسے: ’ابتداے کار‘ ’عدوے حق‘’سراے فانی‘’جوے خوں‘وغیرہ. (ل) جو کلمات ’الف‘یا ’ء‘ پر ختم ہوتے ہیں ان کے امالے میں حرف آخر کو بڑی ’ے‘ سے بدل دیا گیا ہے، جیسے: ’ گھنے پر، پیمانے سے‘وغیرہ؛ مگر ’ح‘ یا ’ع‘ پر ختم ہونے والے الفاظ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی؛ البتہ تیسرے حرف کو مکسور کردیا گیا ہے، جیسے : ’مطِع میں اور برفعِ کو‘وغیرہ.
لغت کے اندراج کے بعد اس کے حرفوں پر اعراب لگائے گئے ہیں جن سے لفظ کے صحیح تلفظ میں مدد ملتی ہے. ’الف‘ سے پہلے حرف پر زبر اور کلمے کے آخری حرف پر سکون نہیں بنایا گیا. ’و‘ سے پہلے حرف پر ضمہ اور ’ی‘ سے پہلے حرف پر کسرہ ان کے مصروف ہنے کی، اورفتح لین ہونے کی علامت ہے. جس ’و‘اور’ی‘ سے پہلے ضمہ اور کسرہ یا فتحہ نہ ہو، اسے مجہول سمجھنا چاہیے. ن، پر الٹا سکون(اس طرح:v) اس کے غنہ یا مغنونہ ہونے کی نشان دہی کرتا ہے. تشدید وتنوین اپنی اپنی عام رواجی آوازیں ظاہر کرتی ہیں. ’واو معدولہ‘ تلفظ میں نہیں آتا جس کی علامت چھوٹی سی لکیر ’شکل زیر‘ اس کے نیچے بنادی گئی ہے.
لغت کے سامنے قوسین یاہلالی بریکٹ میں اعراب ملفوظی کے اشارات درج ہیں جس میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ زیر بحث لفظ کے حروف پر جو اعراب لگائے گئے ہیں ان کا تلفظ اردومیں کس طرح کیا جاتا ہے، مثلاً” مَعقُول، اور مَحدُودد“ دونوں لفظوں کا ”م“ مفتوح ہے، مگر تلفظ کے وقت دونوں فتحوں کی آواز میں سامعہ یہ فرق محسوس کرتا ہے کہ ”مَعقوُل“ کے ”م“ کا فتحہ کھینچ کر پڑھنے سے ”الف“ کی آواز، اور ”مَحدُوود“ کا فتح کھینچ کر پڑھنے سے یا ے لین کی آواز پیدا ہوتی ہے، اس فرق کی بنا پر اعراب ملفوظی میں ” معدول“ کے ”مدد“ کی حرکت محض فتحہ اور ”محدود“ کے ”م“ کی حرکت فتح مہول درج کی گئی ہے. اسی قسم کا فرق ”شکار““ اور ”شِعار““ کے ” س“ کے کسرے کی آوازوں میں، اور ”جُملہ“ اور ”جُبلاَ“ کے ”ج“ کے ضمے کی آوازوں میں پایا جاتا ہے: جیسے ”سِکار“ اور” جُملہ، کے ”س“ اور ” ج“ کی حرکت کو خالی کسرہ اور ضمہ لکھ کر، اور ”شِعار، اور ”جُہلا، کے ” ش“ اور ” ج “ کی حرکت کو کسرہ ٗ مجہول اور ضمۂ مجہول لکھ کر ظاہر کیا گیا ہے.
اسی طرح ”گنگا“ (= دریا کا نام) اور ”رَنْگا“ (= رنگ چڑھایا) دونوں میں چار چار حروف لکھے جاتے ہیں، مگر تلفظ کے وقت ”کَنْگا، میں چار (فعلن کے وزن پر) اور ”رَنْگا“ میں تین (فعل کے وزن پر) پڑھنے میں آتے ہیں. اس تفاوت کو واضح کرنے کے لیے ”کنگا“ کے ”ن“ کو غنہ اور ” رنگا“ کے ”ن“ کومغنونہ لکھا گیا ہے، تاکہ صحیح تلفظ متعین ہوجائے( غنہ سے وہ نون مراد ہے جس کی گنگناہٹ سابق حرف کے بعد اس طرح ادا ہوتی ہے جیسے وہ ایک مستقل حرف ہے اور مغنونہ وہ نون ہے جس کی گنگناہٹ ماقبل حرف میں مخلوط ہوکرادا ہوتی ہے).
بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ قدیم وجدید عہد کے فرق سے یا ایک ہی عہد میں دو طرح پر کیا گیا ہے، مثلاً: اودھر یا ایدھر ، اول پر وزن فعلُن( جیسے میر وغیرہ کے اکثر اشعار ہیں). دوم بروزن فعل (جیسے ہماری آپ کی بول چال میں )؛ مگر اکثر قدیم ادبیات میں دونوں تلفظات کے املا میں الف کے بعد ’و‘ اور ’ی‘ بھی مکتوب ہیں؛ ایسے لفقظوں کے اعراب ملفوظی میں ان کے تلفظ کی دو نوں صورتیں اس طرح درج کردی گئی ہیں کہ اول ’و‘ یا’ی‘ کو معروف، اوراس کے بعد علامت وقفہ بناکر ’الف‘ کو ضمہ اور ’و‘ کو غیر ملفوظ لکھا گیا ہے، اس اندراج میں جہاں وقفے کی علامت نظر آئے یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے بعد تلفظ کی شکل ثانی مندرج ہے.
بعض الفاظ کے املا میں ”واو“ اور ”ی“ اس طرح شامل ہیں کہ انہیں مستقل حرف کی حیثیت سے نہیں پڑھا جاتا، مثلاً ”کْیا “ اور (دخیل لفظ)”کُوالٹی“ (= قِسم) ن میں سے ” کْیا “ لکھنے میں تین حرفوں پر مشتمل ہے، مگر پڑھنے میں (بروزن فَع) دو حرفی ہے؛ اسی طرح ”کُوالٹی“ میں چھ حرف لکھے جاتے ہیں. مگر پڑھنے میں پانچ (بروزن فاِعلُن) پڑھے جاتے ہیں، ایسے الفاظ کا اعراب ملفوظی ”ک ی، مخلوط یا ” ک و، مخلوط، درج کیا گیا ہے. جوان حروف علت کی نیم خواندگی کی علامت ہے.
جو”واو“ رسم الخط میں ”خ“ کے بعد لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھنے میں نہیں آتا( جیسے: ”خِود“ اور ” خِویش“ میں ) ، اسے واو معدولہ درج کیا گیا ہے، یہ تمالم اندرجات اشارات میں ضبط کیے گئے ہیں، جو آگے چل کر ” تلخیصات، کے زیر عنوان مندرج ہیں.
جو”واو“ رسم الخط میں ”خ“ کے بعد لکھا تو جاتا ہے لیکن پڑھنے میں نہیں آتا( جیسے: ”خِود“ اور ” خِویش“ میں ) ، اسے واو معدولہ درج کیا گیا ہے، یہ تمالم اندرجات اشارات میں ضبط کیے گئے ہیں، جو آگے چل کر ” تلخیصات، کے زیر عنوان مندرج ہیں.
تحتی مرکبات میں اصل لغت کے آخری حرف کواضافی کلمے سے وصل کرنے کے لیے اعراب میں جس جگہ تغیر واقع ہوا ہے وہاں اس تغیر کو ہلالی بریکٹ کے اندر بنائے ہوئے بڑے ڈیش (--- ) کے بعد درج کیا گیا ہے)؛ مثلاً: ”اول“ اصل لغت ہے جس کا آخری حرف ”ل“ ساکن ہے. جب اس کے تحت اَولُ الاوائل“ کا اندراج کیا گیا تو اب یہ ”ل“ مضموم ہوگیا، اس ”ل“ کا اعراب اس طرح لکھا گیا ہے:
اعراب ملفوظی کے بعد اسی سطر میں اول لفظ کی قواعدی حیثیت درج کی گئی ہے، اور چونکہ بنیادی طور پر لغت نگار کا موضوع مفرد الفاظ ہوتے ہیں بنابریں تحلیل صوفی پر اکتفا کی ہے (اور ترکیب نحوی سے صرف نظر کیا گیا ہے) پھر جو لفظ محض قدمانے استعمال کیا ہے اس کے سامنے ہلالی بریکٹ میں (قدیم) لکھ دیا گیا ہے.
اگر کوئی لفظ اپنی موجودہ شکل واعراب میں دو یا زیادہ قواعددی حیثیتیں کھتا ہے تو ” (الف)، (ب)،، اور (ج) ، وغیرہ کے تحت اس کی علیحدہ علیحدہ شقیں قائم کی گئی ہیں. اول ایک شق (یعنی قواعدی حیثیت) کی (الف) کے تحت صراحت کرکے لفظ کے معنی اور مثالیں درج کی گئی ہیں. پھر (ب) کے تحت دوسری شق کی صراحت کرکے معانی اور امثلہ کا اندراج کیا گیا ہے، پھر اسی طرح (ج) اور (د) وغیرہ. قواعدی حیثیت بیان کرنے کے ساتھ لفظ کی تذکیر و تانیث بھی اسی مقام پر درج کردی گئی ہے.
اندراج معانی میں کوشش کی گئی ہے کہ مفہوم ایسے لفظوں میں واضح کیا جائے جو جامع بھی ہوں اور مانع بھی، یعنی مفہوم کے پورے اجزا کا احاطہ کرلیں اور مفہوم سے خارج کوئی بات شامل نہ ہونے پائے ، مثلاً:”آنعقاد “ کے اصلی معنی ہیں: ”بندھنا“ ہم نے یہ معنی اشتقاق یا تشریح میں کسی نہ کسی جگہ درج تو کیے ہیں، لیکن ان پر اکتفا نہیں کی، کیونکہ یہ اردو میں اس لفظ کے استعمال کے اعتبار سے نہ جامع ہیں اور نہ مانع، جامع اس لیے نہیں کہ مثلاً ”انعقادنکاح“ میں تو یہ معنی منطبق ہوجائیں گے کہ ”نکاح بندھا“ مگر ”انعقاد بیع“ (= تجارت یا سودا) یا ” انعقاد جلسہ،، ک ےمفہوم پر حاوی نہیں ہوں گے،، کیونکہ اردو میں ”بیع بندھی“ اور ”جلسہ بندھا“ کوئی نہیں بولتا. مانع اس لیے نہیں کہ مثلاً شعر میں جو مضمون بندھتا ہے یا جو لفظ باندھا جاتا ہے اسے ہمارے روزمرہ میں ”انعقاد“ نہیں کہتے.
تشریح کے موقع پر لغت کا مفہوم ادا کرنے والے ایک لفظ یا فقرے پر اکتفا نہیں کی گئی، بلکہ اکثر وبیشتر متعددد مترادفات (حاشیہ) لکھ کر مفہوم اچھی طرح واضح کردیاگیا ہے. اس مقام پر مفہوم ادا کرنے والے ایک لفظ یا فقرے کے بعد اس کا مترادف لکھنے سے پہلے ”علامت سکتہ“ بنائی گئی ہے جو اس بات کی نشانی ہے کہ یہاں سے مترادف شروع ہوا، ناظرین کو تشریح میں جہاں سکتے کی علامت نظر آئے وہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ اب یہی بات دوسرے لفظ یالفظوں میں ادا کی جارہی ہے.
جہاں کوئی ایسالفظ تشریح میں مزید وضاحت کے لیے لکھا گیا ہے جو کلیۃً سابق کی تشریح کا مترادف تو نہیں، مگر ایک حد تک اسی معنی کوادا کرتا ہے اور محل استعمال میں نازک سا فرق ہے، جسے مذاق سلیم محسوس کرتا ہے، ایسا مترادف لفظ یا فقرہ لکھنے سے پہلے سکتے کی بجاے وقفے کی علامت بنائی گئی ہے ، جس سے یہ مراد ہے کہ یہ مفہوم تواسی لفظ کا ہے جوزیر بحث ہے مگر سابق معنی سے اس معنی میں خفیف سا فرق ہے.
مذکورہ تفصیل کے پیش نظر تشریح کی عبارتوں میں ’سکنہ‘ اور ’وقفہ‘ کسی اور مقام پر (جہاں یہ جدید رسم تحریر کےمطابق ہونا چاہیے) استعمال نہیں کیا گیا،، تاکہ تشریح کے سمجھنے میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو.
کسی لفظ کے متعلق متروک یا شاذ ہونے کا اشارہ نہیں کیا گیا؛ لیکن یہ بات کہ لفظ متروک ہے یا نہیں اس کے استعمال کی مثالوںکے قدیم وجدید ہونے سے اخذ کی جاسکتی ہے. اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جدید دورکے بہت سے علماے ادب عموماً ، اور راقم الحروف اور رفقا خصوصاً ترک الفاظ کے حق میں نہیں ہیں؛ کیونکہ اس سے زبان کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے.
تشریح کے آخر میں جہاں ضرورت محسوس ہوئی ہے زیر بحث لفظ کے ساتھ عموماً استعمال کیے جانے والے مفرد یا مرکب افعال بھی درج کیے گئے ہیں.
حاشیہ : یہاں مترادف سے ’تقریباً ‘مترادف مراد ہے ، کیونکہ کوئی لفظ دوسرے لفظ کا کلیۃ ًمترادف نہیں ہوتا.
اس کے محل پر ڈیش کی جگہ نقطہ استعمال کیا گیا ہے.
سوالیہ یا مشتبہ اور تحقیق طلب مقامات پر ، جیسا کہ عموماً جدید رسم تحریر میں رائج ہے (اس کا کھلا ہوا حصہ یا منھ دریافت طلب بات کی جانب رکھا گیا ہے) .
ماخوذ از ، کے معنی میں ، مراد یہ کہ ایک سرے کی طرف لکھے ہوئے لفظ یا زبان وغیرہ سے دو سروں کی طرف لکھا ہوا لفظ وغیرہ ماخوذ ہے .
یہ بات ظاہر کرنے کے لیے کہ اس کے بعد لکھا ہوا لفظ یا فقرہ اصل لفظ کی متبادل صورت ہے .
اندراج اشتقاق میں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ اصل لفظ علامت تجزیہ کے سابق و لاحق سے مرکب ہے (جیسے: ذات الجنب ، ذات+ال+ جنب).
مراد یہ کہ اس کے بعد کا کلمہ سابق کلمے کا مساوی یا مترادف ہے (جیسے : لگاو = تعلق یا نسبت ) .
لفظ کے مفہوم کی ہر شق کے ساتھ اس کے استعمال کی مثالیں ہر دور کے مصنفین کی تصانیف سے یا اخبارات اور رسائل کے مضامین سے اقتباس کر کے درج کی گئی ہیں. ہر مثال کے نیچے کی سطر میں بائیں جانب کتاب ، مضمون اور مصنف کا نام مع حوالۂ صفحہ ، اور دائیں جانب کتاب کے پہلے ایڈیشن یا مسودے کی تکمیل کا سن درج کیا گیا ہے. اگر یہ دریافت نہ ہوا تو مصنف کا سن وفات لکھ دیا گیا ، ایسی صورت میں مصنف کا نام کتاب سے پہلے درج ہے اور یہ ، اس باتک علامت ہے کہ یہ مصنف کا سن وفات ہے نہ کہ کتاب کا سن صنیبف .جہآں دونوں کے سن غیر محقق ہیں وہاں سن کی مقرر جگہ میں سوالیہ علامت بنادی گئی ہے. جن کتابوں کی ایک سے زائد جلدیں ہیں ان کے حوالے میں کتاب کے نام اور سکتے کی علامت کے بعد پہلے جلد کا نمبر ، اس کے بعد رابطہ اور پھر صفحے کا نمبر درج ہے (جیسے : کلیات ظفر ، ۲ : ۲۷). جہاں کسی کتاب کی جلد حصہ اول و دوم پر منقسم ہے وہاں جلد اور حصے کے نمبر کے درمیان آڑا خط بنایا گیا ہے (جیسے : اسفار اربعہ ، ۲/۱ : ۵۳)
اخبارات و رسائل کی مثالوں میں سے سب سے پہلے ان کی نوعیت (روز نامہ ، ماہ نامہ وغیرہ) ، پھر اقتباسیہ میں اس کا نام ، پھر جائے اشاعت ، پھر سکتہ ، پھر جلد، یا اخبارات کی نوعیت تغیرات زمانہ کے ساتھ بدلتی رہی ہے ان کی نوعیت کا اندراج نہیں کیا گیا (جیسے اودھ پنچ).
جو لغت درج کیا گیا ہے اس کی مثال میں جا بجا مغیرہ صورت کا استعمال بھی پیش کیا گیا ہے.
بعض مقاما ت پر اصل لغت کا اندارج مذکر کے طور پر کیا گیا لیکن بول چال میں اس کی تانیث زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے مثالوں کے سلسلے میں بطور مونث استعمال کی مثال بھی درج کردی گئی ہے، لیکن رفع ابہام کے لیے اصل لغت کے اعراب اور قواعدی حیثیت لکھنے کے بعد اس کی مونث صورت بھی واضح کردی گئی ہے.
جن لفظوں کے استعمال کی مثالیں مہیا نہیں ہو سکیں اور ان کا مفہوم کسی لغت یا علمی و فنّی کتاب سے نقل یا اخذ کیا گیا ہے ان کے معنی درج کرنے کے بعد لغت یا کتاب کا نام تشریح کے خاتمے پر مع حوالہ جلد و صفحہ ہلالی بریکٹ میں درج کردیا گیا ہے.
لغات کے حوالے میں صرف ان کا نام لکھ دینا کافی ہوتا ہے ، لیکن بعض لغات میں زیر قلم لفظ کی تقطیع کے علاوہ بھی دیگر الفاظ کے ذیل میں ہمارے مطلوب لفظ کی جزوی تشریحات یا مثالیں ملی ہیں، بنابریں ایسے تمام لغات کے حوالہ مع جلد و صفحہ درج کیا گیا ہے. اخذ کردہ مثالوں اور اقتباسات میں اوقاف و رموز کی پابندی نہیں کی گئی اور انھیں اسی طرح نقل کردیا گیا ہے جس طرح اصل کتاب میں مندرج ہیں. البتہ ایک تبدیلی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ جو الفاظ اصل مضمون میں ملا کر لکھے گئے ہیں مثلاً : مینے (میں نے) ، یا ایکاشکہ (اے کاش کہ)، انھیں الگ الگ املا کیا گیا ہے تاکہ مثال صحیح ملفوظ ہو سکے : علاوہ ازیں کئی کئی حرف ملا کر لکھے جانے میں زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ کاتب کی تحریر ہو اور مصنف نے اپنے مسودے میں الگ الگ ہی لکھا ہو.
برصغیر میں جب دفاتر کا کام فارسی زبان میں چلتا تھا اُس عہد کی اکثر فارسی تصانیف نظم و نثر میں اردو کے اکثر الفاظ یہ ظاہر کرتے ہوئے استعمال کیے گئے ہیں کہ یہ اہل ہند کا روزمرہ ہیں. اس ذیل کے صدہا الفاظ کے کارڈ ہمارے لیے مولانا اعجاز الحق قدوسی نے اپی تشریح نگاری کے دوران تزک جہانگیری وغیرہ کے حوالے سے مہیا کیے جو اس لغت میں جا بجا مثالوں میں درج کیے گئے ہیں.
مثالوں کے اندارج میں عموماً قدیم تر اور جدید تر مثالوں کو ترجیح دی گئی ہے تا کہ لفظ کی تاریخ متعین ہوسکے ؛ لیکن بعض مقامات پر ابہام سے بچنے کے لیے یا اور کسی علمی مقصد سے اس کے خلاف بھی عمل گیا گیا ہے.
اگر کسی شاعر کا دیوان کسی خاص نام سے موسوم ہے تو حوالے میں اس طرح اندارج کیا گیا ہے : دیوان اسیر ، ریاض مصنف ، ۱۷ ؛ لیکن بعض جگہ یہی اندراج اس طرح بھی ہوا ہے . ریاض مصنف ، اسیر ، ۲ : ۱۷.
قدامت کے اعتبار سے اس لغت میں تیرھویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں صدی تک کے ذخیرۂ ادب سے مثالیں درج کی گئی ، اس طرح یہ لغت اردو میں الفاظ کے تقریباً سات سو پچاس (یا اس سے بھی زیادہ) برس کی تاریخ مرتب کرتا ہے.
سب سے آخر میں عمودی بریکٹ کے اندر لفظ کا اشتقاق درج کیا گیا ہے ، جس میں مادے کے بعد ہلالی بریکٹ میں وہ معنی بھی لکھے گئے ہیں جو اردو میں مستعمل نہیں. اسی جگہ عربی کےواحد الفاظ کی متد اول جمع اور بالعکس لکھی گئی ہیں. اسماے تفضیل کے اشتقاق میں معنی کی مزید وضاحت کے لیے وہ صفت بھی درج کی گئی ہے جس کی یہ تفضیل ہے. جو الفاظ سنسکرت وغیرہ سےلیے گئے ہیں اول ان کا تلفظ اردو رسم الخط میں درج کیا گیا ہے اور اس کے سامنے دیونا گری رسم الخط میں اسی کا اعادہ کیا گیا ہے. بعض مقامات پر دو یا زیادہ زبانوں کا تقابلی تعلق بھی ظاہر کیا گیا ہے. ضرب الامثال اور محاورات کا اشتقاق درج نہیں کیا گیا.