محمد ہور اللہ کے درمیان پردا باندے اسے نقابِ کبریا بولتے ہیں .
(۱۵۰۰؟ ، معراج العاشقین ، ۲۳)
اللہ کو زاہد جو طلب کرتے ہیں
ظاہر تقویٰ کو کس سبب کرتے ہیں
آپ کے جانے کے بعد سے گھر بھائیں بھائیں کرر ہے اللہ اس دم کو رکھے.
(۱۹۲۰، اانشائے بشیر ، ۱۵۶ )
تواضع تو نبٹ کرتے ہو سب میں
ہوئے تم مہربان اللہ کب سیں
وہ لطف وہ اشفاق ترے کیا ہوئے اے بت
اب ترک ملاقات ہے اللہ مہینوں
کیوں گر پڑی یہ ،خیر تو ہے کیا ہوا اسے
اللہ ! میرے ہونٹ بھی زہریلے ہوگئے
اللہ نہ وہ آنکھ کسی کی ہے نہ وہ پیار
اک ہم ہیں کہ سب پہ فدا سب کے ہیں غمخوار
اللہ اختر تم اتنے کٹھور بھی ہوسکتے ہو آخر کس لیے.
(۱۹۵۱ ، زیرِ لب ، ۲۱۹ )
تسکینِ مرگ بھول گیا اضطراب میں
اللہ پڑ گیا مرا دل کس عذاب میں
کیا ہی اللہ کو بتوں سے ضد ہے
نہ ذہن دیتا ہے ان کو نہ کمر دیتا ہے
تاعرش جلال آہ کوئی پہنچی ہے شاید
اللہ دماغ دل نالاں نہیں ملتا
کیا کروں اللہ سب ہیں بے اثر
ولولہ کیا نالہ کیا فریاد کیا
بیٹھے بٹھائے عشق کا آزار ہوگیا
اللہ کس بلا میں گرفتار ہوگیا
جنونِ عشق نے سودائے شوق نے کھویا
دماغ سے کہیں اللہ یہ خلل جائے
اللہ یہ کون شخص ہے کوئی مسخرا ہے کیا .
(۱۸۸۰، فسانۂ آزاد ، ۴: ۱۳۴ )
اللہ کدھر ہے در کا شانۂ ساقی
مدہوش ہے وارفتہ ء پیمانۂ ساقی
اللہ باجی تمہیں بتا دو.
(۱۸۹۹، امراو جان ادا ، ۵۰ )
اللہ خرم بھائی آپ ڈرائیے نہیں .
(۱۹۶۱، ہالہ ، ۵۴)
[ع: ال(۱) (رک) + اَلہٰ کی تخفیف ]