جو تلگ ہیں برج بارا جو تلگ ہے آسماں
جو تلگ جھمکائیں بجلیاں جو تلگ برسے سحاب
مجھ شعر کی روانی سُنیا جب سوں اے ولی
نمناک ہے تدھاں ستی دامن سحاب کا
شراب پی لبِ جُو بیٹھ کر سحاب کے دن
کہ تیری اوٹھتی جوانی ہے اور شباب کے دن
زلزلے سے کوہ و در اُڑتے ہیں مانندِ سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
بچھڑ کے تم سے نہیں رک سکے کبھی آنسو
تمام عمر برستے رہے سحاب سے ہم
دوسری قسم – بہ نِسبت پہلی قسم کے زیادہ گہری زیادہ چھوٹی اور زیادہ سفید ہوتی ہے ، اس کو سحاب کہتے ہیں .
(۱۹۳۶ ، شرح اسباب ( ترجمہ ) ، ۲ : ۶۰) .
سحاب ... ان کو تاروں کا جُھرمٹ خیال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ الگ الگ ستاروں میں تحلیل نہیں ہوسکتے ، ان دھّبوں کو سحاب کہتے ہیں .
(۱۹۴۰ ، علمِ ہیئت ( ترجمہ ) ، ۲۳۴) .
سحاب تھا کہ سِتارہ گُریز پا ہی لگا
وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہوا ہی لگا