صفت کیا کروں تیرا
سوجیب ہروے تو تھوڑا
کِسے ہے حد جو خُدا کی صِفت کی حد پاوے
ہر ایک بال کوں گر سو ہزار جیب آوے
ولے دردِ جاں کندنی سے دریغ
جیسے تین سو ساٹھ ماریں ہیں تیغ
غیر پر تکیہِ زینہار نہیں
اک نہیں سو نہیں ہزار نہیں
صِفر جو ایک اُڑا گئے جان٘چ میں بُھول پڑ گئی
سو ہوں سِتم تو دس گِنو یہ بھی کوئی حساب ہے
دیکھایا محل کوں جو مُستید کر
کہ ہر ایک اُنگلی کوں تھا سو ہنر
اے راست وعدہ شام سےتُجھ کو سحر تلک
سو بار پھر گیا ہوں میں رات آکے در تلک
پشتی کو ہے موجود وہ صفدر جو علی ہے
پھر کھین٘چ وہ تلوار جو سو بار چلی ہے
گہرا پردہ کرنے کی بھی کوئی وجہ ضرور ہے ... سو بہانے تراشیں گے.
(۱۹۲۴، خونی راز ، ۶۹).
وہ ایک حرفِ آرزو
تمام عمر سو طرح لکھوں
[ پ : سنت सत ؛ س : شَنت शंत ]