عالم ہوا ہے خرم فردوس باغ کی سم
من جیو سدا ہے بے غم اب شاہ ہور گدا کا
کہا اب منوچہر ہے راج واں
حکومت ہےاُس کی بڑی آج واں
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائینگے
مرگئے پر نہ لگا جی تو کدھر جائیں گے
جب اب تب تجھ سا نہیں کوئی
تجھ سے ہیں سب تجھ سا نہیں کوئی
موت سے ڈر تے ہیں اب ، پہلے یہ تعلیم نہ تھی
کچھ نہیں آتا تھا اللہ سے ڈرنے کے سوا
کن طرے کا باس اب باد صباہت بھیج منج
اِس دماغ باورے کوں باس دے مسرور تھے
مجھے اب دیکھ کر ابر شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر
آج کا ہوتا اب ، ابھی ، اسی دم ہو جائے .
( ۱۸۹۱ ، ایامیٰ ، ۷۳ )
کھینچا ہے دل کوں عشق نے اب دل کوں کچھ چارا نہیں
عاشق کوں کوئی کیتا رکھے کس نے رہنہارا نہیں
اگر بھوت بھاری ہوا جیوناں
دعا اب یہی مجھ ستی سیکھناں
اب کیا کروں ، بن دیکھے مکان کی طرف کیونکر جاؤں .
ہر بو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروے شیوۂ اہلِ نظر گئی
رقیب سرٹیفیکٹ دیں تو عشق ہو تسلیم
یہی ہے عشق تو اب ترک عاشقی اولیٰ
کھیتوں کو دے لو پانی ، اب بہ رہی ہے گنگا
کچھ کر لو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں
یوسن بات ہوئی پھر کے رنجیدہ دل
کہی اب کریں آؤ یک شرط مل
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشففتہ سری کا
اب معلوم ہوا کہ اندر اس ایوان کے میں آپ سے نہیں آیا .
( ۱۸۸۸ ، طلسم ہوش ربا ، ۳ : ۵۰ )
اب دوا سے کام کچھ چلتا نہیں بیمار کا
اب تو ہے تیری دعا ہی تیری امت کا علاج