اگر عشقِ حقیقی میں نہیں صادق ہوا شوقی
ولے مقصود خود حاصل کیا ہے عشق بازی میں
شراب ہور عشق بازی باج منج تھے نا رہیا جا سے
کہ یو دو کام کرنا کر میں لے سوگند کھایا ہوں
ہماری عشق بازی دیکھ کر یہ لوگ جلتے ہیں
لگن ہے دل ہمارے کی مگر یہ آگ کا لگنا
ہمارے یہاں کی شاعری میں عشق بازی اور بے تہذیبی کے سوا ہے کیا.
(۱۸۸۵ ، فسانۂ مبتلا ، ۴)
پھرتی ہے وادیوں میں کیا دخترِ خوش خزامِ ابر
کرتی ہے عشق بازیاں سبزۂ مرغزار سے
ہم اس محبت اس ہیجان کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کچھ بھی نظر نہیں آتا سوا کتّوں جیسی عشق بازی کے اور ایک قسم کے مخالف فورسائٹ رویّے کے.
(۱۹۸۶ ، فکشن ، فن اور فلسفہ ، ۵۴)