شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
رات اک محفل میں تھے لاہور والے شکوہ سنج
شہر پر ایروپلین آ آ کے منڈلانے لگے
قبروں کا وہی حال تھا جو بڑے شہروں میں مسلمانوں کا ہوتا ہے ، بیری کے اجاڑ درخت ، ڈھئی ہوئی دیواریں اور اوندھے پڑے ہوئے تعویذ مردوں کی بے بسی اور زندوں کی بے تعلقی کے شکوہ سنج تھے.
( ۱۹۸۲ ، مری زندگی فسانہ ، ۶۴ )