ہر یک طرف جا کر کیا جست و جو
کیا پر کسی تھے اُنے گفتگو
بیان عشق کی جے ہودہ گفتگو مت کر
نہیں سراج یہ قصہ تمام ہونے کا
شعر میر ے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو ، عوام سے ہے
پر ایک بات یہ کہتے ہو تُم کہ تُو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے ، گویا مزار ہے حرِف آرزو کا
نہ ٹھیرا گیا خرفِ مب یہ عاصم
بہت موڑ آئے گئے گفتگو میں
اب کی وفورِ عشقِ صنم میں ہے گفتگو
مومن کچھ کفتگو اس باب میں یہ نیک ہے یا بَد
ممنون زبانِ غمزہ سے کل اُس نے کیا کہا
ہے میرے ہم زبانوں میں کچھ گفتگو ہنوز
( ۱۸۴۴، ممنون ( فرہنگِ آصفیہ )) .
ہر نایک کا ظرف کُھل جائے گا اس مین گفتگو کیا ہے
خدا آباد رکھے بزم میں شیسشیے کوع قلقل کو
ہمیں بھی کعبہ جانا آرزو ہے
پہ چڈھنے میں گدھے کی گفتگو ہے
شیخ ناسخ بلا گفتگو استاذالاستاذ ماقنے جانے کا استحاق رکھنے ہیں .
( ۱۸۹۷ ، کاشف الحقائق ، ۲ : ۱۵۴ ) .
پم نے یہ مانا نہیں دشوار گچھ ترکِ وفا گفتگو تو صرف اس میں ہے کہ ہم ایسا کریں