جس کے تئیں ”لا“ نہیں ہے بخشش میں
ملک ہے سب ”نعم“ چلو یاراں
جو امر اس نے کیا گر سنے اسے مشرک
نہ صرف لا ہے من٘ھ سے مگر یہی کہ نعم
اگر کچھ کہو ، تو فضل سے کہو والا ، لا .
(۱۸۶۵ ، خطوط غالب ، ۳۸۲)
تجھ سا ساقی کوئی دریا دل نہیں اس دور میں
ہر گھڑی لب پر نغم ہے لفظِ لا کس نے سنا
وہ ”لا“ سے اثبات پیدا کرتا ہے .
(۱۹۸۳ ، تخلیق اور لاشعوری محرکات ۱۶۳)
بڑھ کر تھمی تو حشر بپا ہو کے رہ گیا
گردن سے تا کمر کوئی لا ہو کے رہ گیا
لا کہہ کے دہن کو ہم ہوئے نیست
دو حرف میں ختم گفتگو کی
گر شوق ہے تجھ وصل کا اِلا کوں میں دیکھ توں
ہے عین الا وو ولی جس نے خودی کوں لا کیا
فقط لا کفر ہے اِلّا میں دیں ہے
مسلمانی رکھی ہے حق نے کل میں
لبالب شیشۂ تہذیب حاضر ہے مئے ”لا“ سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانۂ اِلّا
سوشلزم کو علامہ اقبال نے نامکمل اسلام قرار دیا ہے کیونکہ یہ لا تک آتا اور الّا کی منزل تک نہیں بڑھتا .
(۱۹۸۳ ، تنقیدی اور تحقیقی جائزے ، ۱۴۱)
اس لا کی اصل قیمت تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے گی ، لیکن حساب کی اس مشق میں ہم سب کے لیے لذت ہے.
(۱۹۶۹ ، لا = انسان ، ۲۳)