لا اُبالیِ محبّت کا ستم تو دیکھو
خونِ عاشق سے کِیا رنگ حنا کا ایجاد
ملکہ بیدار ہوئی ، سمجھی فعلِ حکیمِ حکمت سے خالی نہیں ، یہ امر لا اُبالی نہیں .
(۱۸۹۰ ، بوستانِ خیال ، ۶ : ۳۹۲)
چمن میں دیکھ ذرا کج کلاہیوں کی بہار
مزاجِ غنچہ میں ہیں لا اُبالیاں فقیری
وہ اپنی آمدنی اور بیوی بچّوں کا خیال کیے بغیر اپنی لا ابالیوں میں روپیہ پیسا اُڑاتے رہتے ہیں .
(۱۹۹۱ ، اُردو نامہ ، لاہور ، نومبر ، ۲۴)
[ لا + ع : ابالی (ب و ل) ، مصدر ابالۃً سے مضارع معروف نفی واحد متکلم = میں پروا نہیں کرتا) ]