موت کی آمد نا گزیر اور لابد سمجھ کے اوس سے مطلق خوف نہیں کرتے .
(۱۸۴۸ ، تاریخ ممالک چین (ترجمہ) ، ۱ : ۲۰۰)
جس جا سے ہوں اس جا پہ میں آیا اے یار
لابُد ہے کہ واں جاؤں گا پھر آخرِکار
خوب یہ نکتہ ہے مشتاقِ خودی کے غور کو
سالکوں کے بے خودی کا مرحلہ لابُد رہا
ان کے سیاسی فلسفہ کی بنیاد بھی اسلام کے دو اہم و لابد عناصر پر قائم تھی .
(۱۹۸۹ ، صحیفہ ، اپریل ، جون ، ۱۳)