میں بیچوں بیچگونہ لامکاں
لاصورۃ و لانشاں
کہ لامکاں و قلم اوجِ عرش ہور کرسی
فلک ستارے چندر سور برق ہور بدل
اُٹ واں تے ترنگ کوں بھکیلیا
میداں میں لامکاں کے ٹھیلیا
دل ک جو خوب دیکھا تو ہو ، کا مکان ہے
ہے اس مکاں میں ساری وہی لامکاں کی طرح
کیا حقیقت دوجہاں کی وسعتِ دل کے حضور
لامکاں اک مختصر گوشہ ہے اس تعمیر کا
زمیں کو تھا دعوےٰ کہ میں آسماں ہوں
مکاں کہہ رہا تھا کہ میں لامکاں ہوں
مکاں اور لامکاں کے تقابل اور لفظ ساری کی پہلو داری نے اس شعر کو قدرِ اوّل بنا دیا ہے .
(۱۹۸۹ ، میر تقی میر اور آج کا ذوقِ شعری ، ۱۳۸)