قیامت تو بس ایک للکار ہے.
(۱۸۹۵ ، ترجمۂ قرآنِ مجید ، نذیر احمد ، ۶۵۷).
بعض وقت ان کی للکار سے سردار پٹیل اور ان کے ساتھی گھبرا اٹھتے تھے.
(۱۹۳۵ ، چند ہمعصر ، ۳۶۱).
ہٹ دھرمی پر آمادہ دیکھتے ہیں تو پھر ان کے لہجے میں للکار کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.
(۱۹۸۹ ، نذرِ مسعود ، ۳۰۰).
اے مری جان تو نے تُرئی کی آواز اور لڑائی کی للکار سنی.
(۱۸۹۹ ، حیات جاوید (ضمیمہ) ، ۷۴).
شیروں کو فنا کرتی ہے للکار ہماری
سرکوب ہمیشہ رہی تلوار ہماری
اس کا مردانہ وقار اس للکار کا جواب دینے کے لیے بیتاب ہو رہا تھا.
(۱۹۳۵ ، دودھ کی قیمت ، ۱۰۴).
زمیندار دوبارہ جاری ہوا تو پھر وہی سیاست ، پھر وہی انگریز و ہندو کی سازشوں کی پردہ دری، پھر وہی مسلمانوں کے لیے للکار اور سرفروشی کی تحریک.
(۱۹۸۱ ، آسماں کیسے کیسے ، ۱۸۷).