ہڑکنیاں و کنچنیاں بہوت ساز سوں
بجاویں و گاویں بہوت ناز سوں
خوش ہو خوشی ہنستی اے ہور عیش متوالا ہوا
عشرت لگیا ات ناچنے آلاب جب گایا انند
ایسی خوش الحانی سے گایا کہ اس کی آواز سے پرند اپنی پرواز سے باز رہ گئے.
(۱۹۳۰ ، اردو گلستان ، ۸۹) .
وہ سورج کے ساتھ ساتھ نیچے اُترے ... سارا شہر روشنیوں سے جگمگانے لگا ... اگر آج وہ نہ گائے تو ... ؟
(۱۹۸۷ ، روز کا قصّہ ، ۲۷) .
غضب کا راگ لائے ہیں نہ آنے کا بہانہ ہے
یہی گاتے ہیں مجھ کو ناچ گھر مں آج جانا ہے
جو ناصح سے مجھ سے ملاقات ہوگی
میں اپنی وہ اپنی سی گاتا رہے گا
یارانِ چمن گاتے ہیں اپنی اپنی
میری سنتے تو دیر تک سر دھنتے
دیکھیا اس دیوانے کوں آتا اہے
کہ بکتا بچپن بونچ گاتا اہے
کیا اوج دو روزہ ہے تو کیا گاتا ہے
پھر سوئے حضیض ، آسماں لاتا ہے
ہم تو مطرب پسر کے جاتے ہیں
گو رقیباں کچھ اور گاتے ہیں