کسو کے نہ انداز پر جا سے جا
صبا ہوئے کیا جانیے کیا سے کیا
انہوں نے فوراً تعمیل کی اور جو خدمت ہوئی بجا لائے وہ کیا سے کیا ہو گیا.
(۱۸۸۳ ، دربارِ اکبری ، ۵۷۸).
اے داغ عشق آفتِ جاں ہے ذرا سنبھل
دو دن میں کیا سے کیا یہ ترا حال ہو گیا
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
کفِ خاک تھے آئنہ ہو گئے ہم
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم
ابھی دوسرے لمحے نہ جانے کیا سے کیا ہو جائے.
(۱۹۸۸ ، جب دیواریں گریہ کرتی ہیں ، ۱۸۸).