بندر باندر ۔
(۱۴۳۳ ، بحر الفضائل (مقالات شیرانی ، ۱ : ۱۱۹)
کہ جسے کھا کے اُچھلنے لگے بندر بن جائے
نتھنے بہنے لگیں منہ لال چقندر بن جائے
چونکہ ہندو ہنومان کو دیوتا مانتے ہیں اس لیے یہ بندر کو مطلق نہیں ستاتے۔
(۱۹۱۳ ، تمدن ہند ، ۵۳)
ایک شیر زور اور پیل تن بندر پیدا ہوا ہے مکانات جا بجا ڈھاتا پھرتا ہے ۔ ۔ ۔ اینٹ سے اینٹ بجادی واہ رے بندر یہ زیادتی اور پھر شہر کے اندر۔
(۱۸۶۹ ، غالب ، خطوط ، ۴۹)
انگریز کو بندر کہنا کتنی بے مثال تشبیہہ ہے۔
(۱۹۶۳ ، غالب کون ہے ؟ ، ۲۹)