ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں ، مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق ازل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
ہم نے بطیب خاطر ان رہزنوں کو بلا بلا کر اپنی روحانی اقدار کی بستیوں میں بسا لیا جو ہمارے ہوش و حواس کو نقارہ بجا بجا کر لوٹتے ہیں ۔
(۱۹۸۱ ، افکار و اذکار ، ۶۲) ۔
اس نے ۔۔۔۔۔ نقارہ بجا کر برعظیم کو دو بڑے حصوں میں منقسم کر دیا ۔
(۱۹۸۸ ، اردو نامہ ، لاہور ، فروری ، ۹) ۔