سورج دو کھنہ پکڑے تاب
چاند گھٹے نت چھوڑ چھوڑ آب
(۱۵۰۳ ، نوسرہا (اردو ادب ، ستمبر ، ۱۹۵۷ء ، ۲ ، ۶ : ۷۸)) ۔
کرتا ہے تسبیح نت بارہ ہزار
اس کے ہر تسبیح سے اے مرد کار
سر شک آٰنکھوں سے جیسے ستارے جھڑتے ہیں
شبوں کو عذر میں نت آ کے پاؤں پڑتے ہیں
سراسر اوس کی ہے پوشاک میلی
غذا کھاتا ہے نت کڑوی کسیلی
یہ پہاڑ سا دن کیسے کٹے ، جی کچھ ایسا گرا ہوا ہے کہ نت کے کام بھی نہیں کیے جاتے ۔
(۱۹۳۸ ، شکنتلا ، اختر حسین رائے پوری ، ۹۹) ۔
جب شہ آیا مات کوں ہوں ُرخ کیوں موڑوں
بازی میری کنتہ کی نت قائم لوڑوں
مرے دوستاں کوں توں نت دے جنت
مرے دشمناں کوں اگن یا سمیع
نت جان و دل سوں ختم ادا کر قران کا
پڑنا حسینی شاہ دلاور پو فاتحہ
تجھ سے میری آل نت قائم رہے
تجھ بدل بابا ہی مرنا اب سہے
حیف اس گلشن میں عاشق سے کوئی راضی نہیں
گل سدا بلبل سے ناخوش مجھ سے تو نت بے دماغ
خدا نت رکھے اُس کے اقبال کو
شہامت کو ، رفعت کو اجلال کو
تجھ پر تو اے تراب علی کا کرم ہے نت
پشتی پہ ہے ہمیشہ ترے شاہ مجتبیٰ
اخیر میں اقبال کی رجائیت پھر اُبھرتی ہے وہ ۔۔۔۔۔ سوچتے ہیں کہ زمانہ نت قوموں کو مٹاتا اور اُبھارتا ہے ۔
(۱۹۹۴ ، نگار ، کراچی ، جولائی ، ۶۲) ۔