حقیقت کیا کہوں اب جراء تِ بیمار کی تجھ سے
بہت ہم نے پکارا پر نہ نکلا منہ سے کچھ ہاں ہوں
نہیں کچھ ترے منہ میں ہاں ہوں نہیں ۔
(۱۸۷۱ ، قواعد العروض ، ۹۰) ۔
ہم اس وقت اپنی چوری کو چھپانے کے لیے ان کی ہر بات کا جواب ہاں ہوں میں دیتے جاتے تھے ۔
(۱۹۳۷ ، دنیائے تبسم ، ۷۲) ۔
بہت دیر کی ہاں ہوں کے بعد کاروباری نے کہا حضور ۔۔۔۔۔ ان کی صحت ۔۔۔۔۔ اچھی نہیں رہتی ۔
(۱۹۹۸ ، بلبلیں نواب کی (ترجمہ) ، ۱۰۹) ۔
اسی ہاں ہوں میں جناب علم و ہنر کے قدردان ۔۔۔۔۔ نے فرمایا کہ خام خیالی سے باز آئیے ہماری فرمائش لائیے ۔
(۱۸۷۵ ، ارمغان گوکل پرشاد (اردو ، کراچی ، جنوری تا مارچ ۱۹۷۵ء ، ۱) ۔
تجکو چھاتی سے لگا لیں گے جو ہونی ہو سو ہو
ماننے کے نہیں ہرگز تیری ہم ہاں ہوں کو