طبیب اس کیرے وصل کوں کر عرض
تیرے برہ کا دور کرلے مرض
(۱۶۳۹ ، طوطی نامہ ، غواصی ، ۲۲۳) ۔
چمن میں نرگس کو کیا مرض ہے جو زرد رُو ہوتی جاتی ہے یہ
وگرنہ گل کی مزاج داں تو صبا بھی بادِ شمال بھی ہے
تیری دواسے اور مرا درد بڑھ گیا
شاید مرض سے ساز مجھے اے حکیم تھا
(۱۸۷۲ ، مرآۃالغیب ، ۹۲) ۔
وہ نوجوان شائزو فرینسیا کے مرض میں مبتلا تھا ۔
(۱۹۹۳ ، افکار ، کراچی ، دسمبر ، ۵۶) ۔
عشق میں رکھ نہ زندگی کی امید
یہ مرض گور ہی جھنکاتا ہے
والد کو ہمیشہ سے جوڑنے کا مرض ہے۔
(۱۸۹۹ ، رویائے صادقہ ، ۳۱) ۔
ایسے ہی ہنسنے کا مرض تھا اور کسی طرح نہیں رُک سکتی تھی تو اُدھر چلی جاتی پیٹ بھر ہنس لیتی
(۱۹۰۸ ، صبح زندگی ، ۱۵۳)
آج کل میں لغت کے مرض میں گرفتار ہوں ۔
(۱۹۹۴ ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری : حیات و خدمات ، ۲ : ۴۵۷) ۔