ہجا میں حرف کی آواز اور ان کی حرکات و سکنات سے بحث کی جاتی ہے ۔
(۱۹۱۴ ، اُردو قواعد (مولوی عبدالحق) ، ۳۷) ۔
علم کے معنی ہیں جاننا اور ہجا کے معنی ہیں حرفوں کو الگ الگ پڑھنا ۔
(۱۹۲۶ ، آئین اردو ، ۱۹) ۔
انھوں نے قواعد اُردو کی شعبہ جاتی تقسیم میں ’’ہجا‘‘ اور ’’عروض‘‘ کے مباحث شامل کیے ہیں ۔
(۱۹۹۸ ، قومی زبان ، کراچی ، مارچ ، ۲۵) ۔
اس کا ذہن ہے یہ جو کرے شاہ کی ہجا
ہے سب یہ اس غریب پہ انشا کا اخترا
وہ لوگ تیزی عقل سے کوئی بات اس واسطے الزام دینے سرکار کے نکال کے داخل کتاب ہجائیں اس ریاست کے کرتے تھے ۔
(۱۸۵۶ ، نامہ واجد علی شاہ (ق) ، ۳۹) ۔
ایسے نمونے تلاش کرنے جن پر آج کل کے خیالات کے موافق مدح یا ہجا کی بنیاد قائم کی جاے بعینہ ایسی بات ہے جیسے ایک ڈسپاٹک گورنمنٹ کی رعایا میں آزادی رائے کی جستجو کرنی ۔
(۱۸۹۳ ، مقدمہء شعر و شاعری ، ۱۹۱) ۔
ہے تربیت بیہودہ گویاں مجھے منظور
واللہ اگر مجھ کو کبھی عزم ہجا ہو