ان پری چہروں ناہید پیکروں سے محترز اور مجتنب رہتے تھے ۔
(۱۸۵۱ ، عجائب القصص (ترجمہ) ، ۴ : ۷) ۔
اس کے خلاف سے محترز و مجتنب رہو ۔
(۱۸۹۷ ، تاریخ ہندوستان ، ۷ : ۲۱۳) ۔
آپ ۔۔۔۔۔ مراسم شرک سے ہمیشہ مجتنب رہے ۔
(۱۹۱۱ ، سیرۃالنبیؐ ، ۱ : ۱۷۸)۔
خالص ترین اظہار سے آخر تک بڑی پابندی سے مجتنب رہتاہے ۔
(۱۹۸۷ ، دامن کوہ میں ایک موسم ، ۸۵) ۔
قوالی چونکہ قویٰ میں ایک عارضی اور وقتی ہیجان پیدا کرتی ہے اس لیے اقبال اس سے بھی مجتنب ہیں۔
(۱۹۹۶، صحیفہ ، لاہور ، اپریل تا جون ، ۸۵)۔