نہ رہ ہرگز مقید مہربانی کی توقع کا
یقیں اس قوم میں دیکھی نہیں ہم نے وفا مطلق
زلیخائے جہاں تیرا ستم مشہورِ عالم ہے
رہا زنداں میں یوسف سا مقید خوب رُو برسوں
شاید وہ بھی ایسی بڑی دیواروں میں مقید رہنے سے تنگ آگیا ہو گا ۔
(۶۲۹۱ ، طلیعہ ، ۳۴)
عظیم انسان اپنی ذات میں مقید نہیں رہتے ۔
(۳۹۹۱ ، اردو نامہ ، لاہور ، جون ، ۰۲)