تاکجا کہیے غرض اس سفلہء دوں کے مزاج
یک وتیرہ پر نہیں گاہے چنیں گاہے چناں
عجب ڈھب کا وتیرہ ہے کچھ اس گردونِ گرداں کا
کہ ملنا دیکھ ہی سکتا نہیں انساں سے انساں کا
میاں میر صاحب کا وتیرہ تھا کہ رات کو کسی شخص کو اپنے پاس رہنے نہ دیتے تھے ۔
(۱۸۶۴ ، تحقیقات چشتی ، ۳۲۷) ۔
جن کا وتیرہ اس کے برخلاف تھا وہ فدوی سے بھی صاف نہیں رہ سکتے تھے ۔
(۱۹۲۵ ، وقار حیات ، ۳۳۴) ۔
کسی کی اہمیت کو گھٹانا یا اپنے سامنے دوسروں کی نظروں سے گرانا چھوٹے اور گھٹیا قسم کے خود ساختہ بڑوں کا وتیرہ ہوتا ہے ۔
(۱۹۹۳ ، صحیفہ ، لاہور ، جولائی ، ۵۴) ۔