جز گرمی پانی کوں جوش اظہاری نہیں ۔
(۱۵۸۲ ، کلحتہ الحقائق ۔ ۲۷)
بنایا توں آدم کوں بھو چاؤ سوں
سو خاک ہور اگن پانی ہور باؤ سوں
ہنسی سے ان کو پانی کا لگا بیٹھے جو ہم چھینٹا
تو منہ پر ہاتھ رکھ بولے دیا تم نے ستم چھینٹا
ہر ملک اور قوم نے جنگ پر روپیہ کی طرح بہایا تھا۔
(۱۹۵۲، امن کے منصوبے ، آغا اشرف ،۵۷)
روزہ کیا رکھیں وہ سے خوار جو میخانے میں
پانی پی پی کے شب و روز گزر کرتے ہیں
مسی مل مل کے وہ ہنستے ہیں رلائے کو مرے
ابر ہے برق چمکتی ہے وہ آیا پانی
دنیا میں سب سے زیادہ کہاں پڑتا ہے ۔
(۱۹۶۲، آفت کا ٹکڑا ،۱۲۸)
اف : آنا ، برسان ، ارسنا ۔ پڑنا۔
دو گلٹ کے پیالے اور کَلُوں کے پانی کی دو شیشیاں .
(۱۹۰۷، نیپولین اعظم ، ۵ : ۳۷۳)
اس کی آنکھ میں ذرا پانی نہیں ۔
(۱۸۹۵، فرہنگ آصفیہ ا: ۴۸۲)
تپتے بن میں رہے پیا سے تو یہ سوکھا پانی
بچے روئے بھی تو آنکھوں سے نہ نکلا پانی
ظفر گھر ہے چاکر ہو روندیاں کی صف پر تو ور ہے
بہے طوفان کا لہر ہو تری شمشیر کا پانی
اپنے کشتوں سے وہ خونخوار ملے مشکل ہے
خون میں تیغ کے پانی کو نہ شامل دیکھا
نہ ہوا بسط پیمبر کو میسر پانی
آہ اے تیغ ترے منہ پر ہے کیونکر پانی
موسمِ گل میں تکلیف کیا دیوانوں نے
اپنی زنجیروں پہ سونے کا چڑھایا پانی
اس پر ... سونے پانی چڑھایا تھا.
(۱۹۴۰، ہم اور وہ ، ۴۳)
اف : چڑھایا۔
پانی اور کھیت کا اچھا جانور .
(۱۸۹۵، فرہنگ آصفیہ ، ا : ۴۸۱)
اشک باری مری مژگاں کی ذرا دیکھیں تو
کتنے پانی میں ہیں فوارے بھلا دیکھیں تو
دلیر دھونکل ! دکھاؤں تجھ کو کہ مجھ میں ہے کس قدر پانی ۔
(۱۹۰۱، عشق و عاشقی کا گنجینہ ، ۸)
آبلہ ٹوٹ گیا اور پانی نکل گیا۔
(۱۹۲۶، نوراللغات ، ۲ : ۱۹)
رکھو برابر بازی کو، دونوں ہوا میں بھرے ہوے ہیں، پانی ان کا کون کرے ۔
(۱۸۷۹، بوستان خیال ، ۶ : ۲۵۶)
ہفتے میں ایک پانی بڑھائے حتیّٰ کہ گیارہ پانی پر نوبت آئے ۔
(۱۸۸۳، صید گاہ شوکتی ، ۱۸۹)
آج ۔ ۔ ۔ ماشائ اللہ سے چشم بددور ساتواں پانی تھا۔
(۱۹۵۴، اپنی موج مئں ، ۲۶)
خاوند کے پانی ۔ ۔ ۔ کا جمع ہونا زانی کے پانی کے ساتھ ایک رحم میں کیسے درست ہوگا۔
(۱۸۶۶، تہذیب لایمان (ترجمہ ) ، ۷۴)
گوشت کو دھو کر ۔ ۔ ۔ یخنی پکانے کو رکھیں جب گوشت گل جائے تو اتار لیں اور گوشت کو الگ کرلیں پانی کو الگ کسی برتن میں نکال کر ریکھیں ۔
(۱۹۳۲، مشرقی مغربی کھانے ، ۱۲۵)
یہ آم پانی نکلا۔
(۱۹۲۶، نوراللغات ، ۲ : ۱۹)
ہر بجر میں دریا کی روائی نظر آئے پتھر کا بھی مضموں ہو تو پانی نظر آئے
(۱۸۷۵، مونس ، مراثی ، ۳ : ۱۲۱)
پانی ین س
[س : پانی بن पानयि]