صبح ہوا باصفا رین کا کجلا کوا
چھوڑ چمن کی ہوا غیب ہوا بازغن
اس ہوا تھے وہ ہوا آدھی ، جہاں نور محمد کیا شاد ہے ۔
(۱۵۸۲ ، کلمتہ الحقائق ، ۲۶) ۔
گشت چمن و ہوائے کلیاں
بن پیالہ کنار خوش نہ دیسے
شریک ان کی مصیبتوں کے ملائکہء مقربین اور انبیائے مرسلین ، ساکنان ارض و سما و جانوران ہوا ۔۔۔۔۔ اور تمام جن و بشر ہیں ۔
(۱۷۳۲ ، کربل کتھا ، ۴۶) ۔
اوہاں بوے جنت کی آوے ہے خوب
لپٹ اور ہوا ہے بہشتی عجوب
بنا ہے اپنی ہوا خاک آگ ، پانی پر
نہیں یہ سہل کھلاڑی کی لاگ پانی پر
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے باد پیمائی
ہے درس میں وہی ترتیب مادّہ اب تک
کہ پہلے خاک ہے پھر آب ، پھر ہوا پھر نار
جھاڑیاں جو چٹانوں (سمندر کی چٹانوں ، وغیرہ) پر بالکلکھلی اگتی ہیں جن کی شاخیں موجودہ ہوا کے رُخ کی طرف ہی جھکتی جاتی ہیں ۔
(۱۹۴۳ ، مبادی نباتیات (محمد سعید الدین) ، ۲ : ۶۸۴) ۔
سطح زمین سے اٹھنے والی فضا کو ہوا کہتے ہیں ، یہ ہوا حرارت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتی ہے ۔
(۱۹۶۷ ، عالمی تجارتی جغرافیہ ، ۵۱) ۔
فطرت میں جتنے بھی عمل رونما ہوتے ہیں ، وہ ان ۔۔۔۔۔ تمام اشیا ، مٹی ، ہوا ، آگ اور پانی کا مرکب ہیں ۔
(۱۹۹۹ ، سوفی کی دنیا (ترجمہ) ، ۶۷) ۔
ہوا بادلوں میں پتوں ، پھولوں ، گھاس پر کھلے کواڑوں کے اندر ۔۔۔۔۔۔۔ رابطے بناتی چلی جاتی ہے ۔
(۲۰۰۶ ، عرض مصنف (بانو قدسیہ) ، ۷) ۔
ساقی پلا پیالا منج کوں ہوا ہوا صبح
دو تن کی چاڑی ڈر تھے منگتا ہوں میں دعا صبح
جو ہوں میں جو بندہ اسیر ہوا
کہ آیا ہوں تجھ بندگی میں نوا
جاں لگ ہیں دیندار یو دُکھ درد بانٹ لے
چھوڑے دنیا کی حرص و ہوا ہائے ہائے ہائے
ہوا تیری نگہ کی بس کہ ہے مجھ
ہوا ہے دل مرا تیر ہوائی
رحم آتا ہے مجھے اس مشت خاک اپنی پہ ہائے
خوبرویاں کی ہوا میں یوں گئے برباد ہم
ہوس مٹ جاوے دل سے ما سوا کی
رہے باقی ہوا تیری لقا کی
اور جو اچھی شکل کی ہے کچھ ہوا
تو تعین کا ذرا پردہ اوٹھا
ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا
یاں دل کو ہوا جو اور کی تھی
کانٹا سی پری کھٹک رہی تھی
اے سہو کے حاملو! خطا کے بندو!
اے حرص کے حامیو! ہوا کے بندو!
میں ہی طاقت وروں میں طاقت ہوں مگر حرص و ہوا سے پاک ہوں ۔
(۱۹۸۴ ، یوسف سلیم چشتی ، تاریخ تصوف ، ۵۸) ۔
ان کا سب سے دل چسپ مشغلہ ایک ہی ہے اور وہ ہے اپنے ہوا اور خواہشات کی تکمیل جو غالب طور پر جنسی ہوتے ہیں ۔
(۱۹۵۶ ، افکار حاضرہ ، ۳۴۱) ۔
روح نے خاک کے پُتلے کو حقیقت دی ہے
یہ ہوا کاش بشر میں نہ سمائی ہوتی
افسوس ہوا نے توڑ ڈالا وہ وضو
اک گھونٹ نے کر دیا وہ روزہ باطل
رفتار میں ہوا تھا اشارے میں برق تھا
سرعت میں کچھ کمی تھی نہ چھل بل میں فرق تھا
اس پر ہوا سا باریک کاغذ تھا جس کی سفیدی میں سے تصویر کے رنگ جھلک رہے تھے ۔
(۱۹۳۲ ، روح ظرافت ، ۲۵) ۔
میخانے کی ہوا بھی بری ہے جناب شیخ
دیکھو وہ لڑکھڑائے وہ بہکے حضور پانو
اس زیست کا اعتبار کیا ہے
کوئی دم میں یہ زندگی ہوا ہے
ایک دم پر ہوا نہ باندھ حباب
دم کو دم بھر میں یاں ہوا دیکھا
آج ہے آہ کی ہوا کچھ اور
دیکھیے کس طرف پلٹتی ہے
ہنستا ہے پریشانی عاشق پہ جو ہر دم
اوس گل نے زمانے کی ہوا کو نہیں دیکھا
شیخ مبارک استاد ہوئے مگر اب بچپن کا مغز کہاں سے آئے خیر یہ بھی ایک ہوا تھی چند روز میں بدل گئی ۔
(۱۸۸۳ ، دربار اکبری ، ۱۳۷) ۔
دیکھ لی تونے زمانے کی ہوا لالہء باغ
داغ تجکو بھی ملا میرے جگر کی صورت
کب عیش میں وہ لطف ہے کب غم میں مزا وہ
اگلی نہ وہ دنیا ہے نہ دنیا کی ہوا وہ
کس ہوا میں ہم ابھرتے ہیں عبث مثل حباب
یہ تو ثابت ہے کہ مشت خاک بے بنیاد ہیں
آدمی اپنی ہوا میں آپ ہوتا ہے فنا
سر اوٹھانا اس قدر مثل حباب اچھا نہیں
پھرے وہ ہم سے تو منہ پھر گیا زمانے کا
رجوع خلق خدا خلق میں ہوا پر ہے
امیر خسرو کی ان اختراعات سے قول ، قلبانہ ، نقش ، گل ، ہوا ۔۔۔۔۔ موسیقی کی مایہ ناز(Forms) سمجھی جاتی ہیں ۔
(۱۹۶۷ ، شاہد احمد دہلوی ، ہندوستانی موسیقی ، ۱۴۴) ۔
قوالی امیر خسرو کی ایجاد ہے ، اس میں چھ اصناف کی بندش ہے ، قول ، قلبانہ ، رنگ ، گل ، نقش اور ہوا ۔۔۔۔۔ ہوا میں غزل کے بول آتے ہیں ۔
(۲۰۰۰ ، زندگی کی یادیں ، ۱۰۱) ۔
لیڈر مسلمہ لکھنے سے نہیں ہوتے ان کی ہوا چندوں کی ہوتی ہے ان کی روشنی جلدی گل ہو جاتی ہے ۔
(۱۹۱۸ ، چٹکیاں اور گدگدیاں ، ۶۴) ۔
راقم تمہیں پھنسے رہے ان شاہدوں میں یار
اچھے رہے کہ بچ گئے اون کی ہوا سے ہم
بزدلی کے کل معائب اس کے خون میں ملے ہوئے ہیں اور شجاعت کے کسی ہنر کی ان کو ہوا تک بھی نہیں لگی ہے ۔
(۱۹۲۸ ، مرزا حیرت دہلوی ، مضامین ، ۴) ۔
ہزار عالم مہر و وفا تھے جن میں نہاں
ہوائے غم نے وہ ذرّے اڑا دیے دل کے
ہواے عشق تھی ہرگز اسے لکھنے نہ میں دیتا
اگر اس دل پہ ہوتا ہاے کچھ بھی اختیار اپنا
جز تیری ہوا کے اپنے سر میں
مانند حباب کچھ نہ نکلا
یہ عالم دیکھتا اپنی ہوا میں
بڑھا کچھ دور راہِ مدعا میں
کچھ آنے لگا جب سے اثر آہِ رسا میں
دل اور ہوا میں ہے جگر اور ہوا میں
لائی ہے صبا جب سے تری خاک یہاں تک
’’دل اور ہوا میں ہے جگر اور ہوا میں‘‘
بیجا رسوم و محض جذبات کو اپنے اوپر مسلط کرنے میں وہ انسانی ذہن کی توہین سمجھتے تھے ، اس ہوا میں فرائض بھی بھول گئے ۔
(۱۹۴۲ ، ادبی رجحانات ، ۹۴) ۔
نامہ دیا تو اُس گل گلزار حسن تک
دم میں پہونچ گیا مرا قاصد ہوا ہوا
جعفری نے پھاٹک سے نکلتے ہی کار ہوا کردی ۔
(۱۹۶۸ ، ساحل سے دور ، ۱۰۶) ۔
کھلے اُن پہ اے دل نہ رازِ محبت
ہوا تک بھی اس کی نہ دم ساز دینا
کچھ ہوا پر بھی تم رکھو ہو نگاہ
گھونگھری پٹو کچھ بھی ہے ہمراہ
ساقی ٹک ایک موسم گل کی طرف بھی دیکھ
ٹپکا پڑے ہے رنگ چمن میں ہوا سے آج
ارم کی اب ہوا ہے اور میں ہوں
نواح نینوا ہے اور میں ہوں
ایک تخت ہوا سے اترا ، اس پر ایک شخص ۔۔۔۔۔ خلعت پہنے ہوئے بیٹھا تھا ۔
(۱۸۰۲ ، باغ و بہار ، ۱۱۰) ۔
آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
روز برسات کی ہوا ہے یاں
جھومتی آتی ہے کیا مثل سیہ مست گھٹا
ساقیا آج تو ہے شیشہ و ساغر کی ہوا
اب تک یہ ہوا باغ جہاں میں نہیں دیکھی
غل تھا کہ بہار ایسی خزاں میں نہیں دیکھی
سہل ہے اوڑجائے گردن مجہ(مجھ) نحیف و زار کی
ناتواں ہوں مجکو کافی ہے ہوا تلوار کی
ع