۱۔ خلا یا فضاے بسیط میں وہ نیلگوں حدِ نظر جو گنبد كی طرح چاروں طرف سے زمین كا احاطہ كیے ہوئے دكھائی دیتا ہے، آكاش، چرخ، سپہر، فلك، سما (قدیم فلسفی اسےایک جسم ناقابل خرق والتیام مانتے تھے اور تلے اوپر سات آسمانوں كے قائل تھے، ان كا یہ بھی خیال تھا كہ یہ گردش كرتا ہے اور روز وشب اور تمام نیک و بد اس كی گردش سے رونما ہوتے ہیں)
سات طبق آسمان ہور عرش و كرسی یونو مقام ہیں۔
(۱۴۲۱ء بندہ نواز ، شکار نامہ (ق)،۳)
كروں نہ شكر جفاہاے آسماں كیونكر
مری خرابی میں ان نے نہ كی كبھو تقصیر
وہ نیمچوں كے كرشمے كہ نیم جاں كردیں
زمیں كو چرخ میں لائیں تو آسماں كردیں
آسمان كے فرشتیاں كا تماشا دیكھ كر جبروت كی منزل سوں ممتنع كے شہر كو پہونچے۔
(۱۵۰۰؟ معراج العاشقین ،۲۳)
حوروں كے ہوش اڑتے ہیں پریوں كی شان پر
نیلم پری ہے نام مرا آسمان پر
اس وقت چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ایسی نہ تھی جس كی اصل آسمان سے نہ بتائی جاتی ہو۔
(۱۹۴۳ء انطونی اور کلو پیٹرا ،۲۲)
كہیں تین چار بجے جا كر آسمان صاف ہوا۔
(۱۸۹۰ء جغرافیہ طبیعی ،۲:۱)
معاذ اللہ آج كس قدر اولے آسمان سے گرے ہیں۔
(۱۸۹۱ء امیراللغات ،۱۱۸:۱)
میری پیدائش كے وقت آسمان گرجا۔
(۱۹۱۶ء خطوط محمد علی، ۱۱۲)
آسمان تین برس چھ مہینے بند تھا یہاں تک۔ ۔ ۔ ۔ بڑا كال پڑا۔
(۱۸۱۹ء کتابِ مقدس ،۱۵۲)
لنگڑی كٹو آسمان پر گھونسلا۔
(مشہور كہاوت (فرہنگ آصفیہ، ۱: ۱۶۷)
كچھ بھی مناسبت ہے یاں عجز واں تكبر
وے آسمان پر ہیں میں ناتواں زمیں پر