تھا ذوق سراج آتش دیدار میں جلنا
صد شکر کہ پروانہ کا مقصود بر آیا
نہ داغ یاس سے گھبرا بر آئے گی امید
گلوں کے بعد ہوا کرتے ہیں ثمر پیدا
قابو میں نہیں ہے دلَ شیداے مدینہ
کب دیکھیے بر آئے تمناے میدنہ
بلبل ہزار رنگ سے گو ہے سخن سرا
پر تجھ سے گفتگو میں بر آیا نہ جائے گا
دنیا میں کوئی اس پہ ظفر پا نہیں سکتا
ہو سارا جہاں ایک تو بر آنہیں سکتا
اے قمر چہرۂ روشن سے نہ تو بر آیا
آسماں کا تھا یہ تھوکا ہوا منہ پر آیا
مسافر جہاں پیما آفتاب کا بستاں سراے مشرق کے سے بر آیا .
( ۱۷۷۵، نو طرز مرصع ، تحسین ، ۱۶۰ )
شاہ بھی اس محل سے بر آیا
دوسری نازنیں کے گھر آیا
یہ سبب عدم وصول ی اجہت وضع ہونے اخراجات سزا ول باقی بر آوے .
( ۱۸۴۹، دستور العم انگریزی (ترجمہ : مشن لال) ، ۱۷۶ )
ہر چند یہ بات پنڈت لوگوں سے پوچھی گئی لیکن کسی سے اس کا جواب شافی بر نہ آیا .
( ۱۸۵۸، وقائع رام چند ، ۱۹ )
عہدے سے تیرے مجھ کو بر آیا نہ جائے گا
یہ ناز ہے تو ہم سے اٹھایا نہ جائے گا
قلم شکستہ رقم میں کتنی قدرت کہ اس عہدے سے بر آوے .
( ۱۸۱۰، اخوا الصفا ، ۱ )
جلے خوش ہوئے کربلا میں چو عود
ہر گز اون سیتی بر نہ آیا دود