بھنگیوں کا ہجوم ہے برپا
بات ان کی میں لگ ہرا ختکا
نشاں جابجا میل و فرسخ کے برپا
سر رہ کوئیں اور سرائیں مہیا
شدید جنّی نے ایک چھو لداری اپنے واسطے علیٰحدہ برپا کی .
( ۱۹۰۴، آفتاب شجاعت ، ۴ : ۱۸۹ )
ہے بارہ وفات کا مہینا
میلاد کی محفلیں ہیں برپا
اس لیے آج انھیں بلایا تھا
اور صحبت ہوئی تھی یہ برپا
فرست بے سامان ہو کر جو چاہا کیا مہینوں آشوب برپا رہا .
( ۱۸۹۰، فسانۂ دل فریب ، ۵ )
اُحد کے میدان میں دار وگیر کا شور برپا تھا .
( ۱۹۳۲، سیرۃ النبی ، ۴ : ۸۵۹ )
اسی طرح بہت سے مفسدے اس ملعون نے برپا کیے.
( ۱۸۲۲، دفائق الایمان ، ۱۱ )
تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا .
( ۱۹۲۳، سیرۃ النبی ، ۳ : ۷۴۷ )
آبرو نشوونما کی نہیں غربت میں نصیب
طفل اشک آنکھوں س گر کر کبھی برپا نہ ہوا
اف : کرنا ، ہونا .
-
[ بر + پا (ڑک) ]