۲، (i) لوہے ، پیتل ، تان٘بے ، جست وغیرہ معدنی اشیا کا لمبا پتلا اور گول ڈورا جو باجوں کے پردے یا ساز بنانے میں کام آتا ہے
مقامات کے بن میں فن کی نوے
چلی تار تنبور کی کالوے
(۱۶۵۷، گلشن عشق ، ۲۷)
اس نار کوں کر نہار سنگار
اس تار کوں چھیڑ تا ں کوں بھار
(۱۷۰۰، من لگن، ۳۹ )
تمور اور سارنگی اور چنگ اور تمام باجے اور تارکی چیزیں اون کا سننا اور برتنا سب حرام ہے
(۱۸۶۶، تہذیب الایمان ۲۵۹)
(ii) لوہے جست تان٘بےوغیرہ کے وہ تار جن پر برقی رو دوڑتی ہے
تار کا سلسلہ ایران کے اندر سے ہندوستان لے جانا مقصود ہے
(۱۹۶۸، اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، ۶ : ۶۵۳)
(iii) لوہے کا وہ تار جس سے صابن کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو کاٹا جاتا ہے ایسے تاروں کے سروں پر دو گھنڈیاں سی لگی ہوتی ہے
چار آئینہ میں تیر کے باہر نکل آئے
صابون سے دو تار برابر نکل آئے
(۱۸۷۴، انیس ، مراثی ، ۱ : ۱۶۱)
۳. (i) مکڑی کے جا لے کے تار کی طرح کمزور (اکثر عنکبوت کے ساتھ )
اک فلسفہ ہے تیغ کا اور اک سکوت کا
باقی جو ہے وہ تارہے بس عنکبوت کا
(۱۹۲۱، اکبر ، ک ، ۱ : ۳۴۷)
(ii) مکڑی کا جالا
جیسے اپنے جال کے ایک ہی تار پر مکڑی دوڑا کرتی ہے
(۱۹۲۳، نگار ، فروری ، ۱۴۲)
۴. تعلق رشتہ ، واسط
نہ ہو جا حرکت بیجا خبردار
نپٹ نازک ہے تار آشنائی
(۱۷۱۸، دیوان آبرو (ق) ۴۵)
دل میں غم رکھتے ہیں پر آنسووں کے تار نہیں
اپنے قانون محبت میں کوئی تار نہیں
(۱۹۲۵، ریاض امجد ، ۱۳۴)
۵. سلسلہ ، تان٘تا ، تسلسل
سات ہزار برس سے یہی تار چلا آتا ہے یعنی بے شمار آدمی اب تک دنیا میں مر چکے ہیں
(۱۸۶۸، مراۃ العروس، ۲۸۷)
گوندھی گئی ہے تار سخن میں خبر بھی ہے
کن مہوشوں کی زلف پریشاں ترے لئے
(۱۹۳۳، سیف و سبو۶)
۶. قبضہ ، قدرت ، سلسلۀ حیات . نفس ، دم ، سان٘س ذریعۀ حرکت
سانس کے دم سے زمانے کی اچھل کود ہے سب
پتلیوں کے یہ تماشے ہیں اسی تار کے ساتھ
(۱۹۴۶، سنگ و خشت ، ۶۵۶)
۷. (i) شکر کے قوام کے کھن٘چاؤ کی وہ کیفیت جو اس کو پکا کر پیدا کی جاتی ہے ، تار قوام
میٹھے ٹکڑوں کے لے صرف ایک تار کا قوام کافی سمجھا جاتا ہے ۱۹۰۶ء، نعمت خانہ ۱۶۸
(۱۹۴۶، سنگ و خشت ، ۶۵۶)
(ii) کسی مائع یا قدرتی عرق کی وہ چپک جو تار کی طرح کھن٘چ جاتی ہے
بڑکے دودھ میں بڑا لیس ہوتا ہے ذرا سا انگلی میں لگا کر تار تو اٹھاو دیکھو کہاں تک نکلتا چلا جاتا ہے
(۸۶۹ء، ،اردو کی دوسری کتاب ، آزاد ۴۸)
۸ . (i) خطوط اور دوسرے ضروری کاغذات پرونے کا تار
(نور اللغات )
(ii) بال
(نور اللغات )
۹. (محکمہ وغیرہ) تار بارقی ، ٹیلیگراف
ڈاک اور تار کے دونوں محکمے اب ملادئے گئے ہیں
(۱۹۶۴، انشاے بشیر ۲۲)
۱۰. برقی تار کے زریعے آنے والی خبر ، ٹیلیگرام برقی پیغام
پاس ایک تار کا کا لال کاغذ پڑا تھا سمجھا کہ اس میں کچھ لکھا ہے جلدی سے اٹھا کر تار پڑھنا چاہا
(۱۹۲۸، پس پردہ ، ۷۶)
۱۱. (i) تاریکی ، اندھیرا ، ظلمت
دو رنگی یہ چادر ہے لیل و نہار
گہے نور دکھلاوے گا ہے یہ تار
(۱۸۴۴، مشنوی اپورب کشن کنور ۵۸)
وہ زندگی کے روشن و تار کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کرتا ہے
(۱۹۷۶، حافظ اور اقبال ، ۴۳۳)
(ii) تن٘گ
(فرہنگ عامرہ)
۱۲. زیور کا کوئی چھوٹا حصہ ، ، چھلا ، ان٘گوٹھی؛ زیور میں استعمال ہونے والا باریک تاروغیرہ
وہ توڑے ہاتھ میں تاروں کے ، باریک
کہ بن دیکھے جہاں ہو جس کے تاریک
(۱۷۷۸، مثنویات حسن ، ۱ : ۲۰۵)
یہاں تک کہ ایک چاندی کا تار اور تانبے کا کٹورا تک باقی نہ رہا
(۱۹۰۰، شریف زادہ ، ۳۶)
سونے کا تار نہ چاندی کا چھلا
(۱۹۱۷ء، شام زندگی، ۸۴)
۱۳. بادلہ یا گوٹے کناری کا تار
لے کے شفق کی اوڑھنی سیلا کرن کے تار کا
لیایا ہے ان پشواز کوں سورج ترا ہو کر بجاز
(۱۶۹۷، ہاشمی ، د، ۸۴)
۱۴. کپڑے کی دھجی ، لیو
اس نے عجب عجب فیل مچاے گھنٹوں تک پٹخنیاں کھایا کی کپڑوں کا ایک تار باقی نہ رکھا
(۱۸۷۷، توبہ النصوح ، ۱۰۸)
سالن کے اوپر کی چکنائی.
کسی نے کہا ذرا سا تار دو، کوئی بولا چودھری ایک بوٹی ہے ریشہ.
(۱۹۲۳، اہل محلہ اور نا اہل پڑو سی، ۳۱)
۱۶. (مجازاً) سلسلہ (رک ء تار بارش وغیرہ)، ابشار کی وہ رو جو چمک دار تارسی نظر آتی ہے.
وہ پانی کا جھرنا وہ چاندی کے تار
وہ شیشے کی چاردر وہ صاف آبشار
(۱۸۳۰، نظیر ، ک ، ۳۱۴)
۱۷. (i) تانا بانا
(نوراللغات)
(ii) رفیق چیز کی دھار
(فرہنگ عامرہ )
۱۸. (i) وہ تار جو کٹھ پتلیوں کے تماشے میں کام میں لاتے ہیں.
بچوں کو کٹھ پتلی کی طرح تار پر نچا رہا ہے.
(۱۹۲۵، معاشرت ، ظفر علی حاں ، ۲۵)
(ii) اختیار عمل و حرکت وغیرہ.
ہمارا تار حدا جانے کس کے ہاتھ میں ہے
تماشا گر ہے نہاں اور ہم ہویدا ہیں
(۱۸۹۶، تجلیات عشق، ۲۲۳)
۱۹. بجلی کا تار.
تار کیا آتش کا پر کالہ ہے ظاہر میں سرد مگر زگال اوس کی قربت سے گل لالہ ہے.
(۱۸۴۵، مرقع پیشہ و راں ، ۷)
ناظم یہ تار بجلی کے نکلے ہیں واہ خوب
باتیں کریژ گے یار ہو کتنا ہی ہم سے دور
(۱۸۶۱، دیوان ناظم ، ۸۰)
۲۰. (پیمائش) مساحت میں ہر سطح کو ناپنے کے بعد ان کا سولہواں حصہ.
گرہ کے سولویں جم کو بہر کہتے ہیں اور اس کے سولویں جم کو تار کہتے ہیں.
(۱۸۵۶، فوائد الصبیان ، ۴۳)
۲۱. وہ دھاگا جس سے کپڑا بنا جائے.
دیوانگی سے دوش پہ زنار بھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں ایک تار بھی نہیں
(۱۸۶۹، غالب ، د ، ۱۲۰)
اہم اطلاع
اردو لغت بائیس ہزار صفحوں پر مشتمل ، دو لاکھ چونسٹھ ہزار الفاظ کا ذخیرہ ہے . اسے اردو زبان کے جیّد اساتذہ نے 52 سال کی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے .
زیر نظر ویب سائٹ انسانی کاوش ہے لہذہ اغلاط کے امکانات سے مبرا نہيں ، آپ سے التماس ہے کہ اغلاط کی نشان دہی میں ہماری معاونت فرمائیں .
نشان دہی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر رابطہ کے ان باکس میں اپنی رائے سے آگاہ کریں .