چاروں ملکر بازار کوں گئے .
(۱۴۲۱ ، خواجہ بندہ نواز ، شکار نامہ ، ("شہباز ، سکھر ، فروری ، ۶۲ ) )
وہ شب ہولناک لشکر میں سناٹا بازاریں بند .
( ۱۸۹۲ ، طلسم ہوشربا ، ۶ : ۴۹)
معزز اور نامور غلاموں کا جیسا بازار مصر رہا ہے اور کوئی ملک نہیں رہا .
(۱۹۲۶ ء شرر ، مضامین ، ۳ : ۱۷۲)
سنسار جو یو ہے روز بازار
مانس کوں رکھیا ہے کر خرایدار
اسی درخت کے نیچے بازار اور میلے ہوتے ہیں .
(۱۹۲۳ ، ویدک ہند ، ۲۲۴)
ہندوستانی کارخانوں کے لیے بازار ہونے ضروری ہیں جہاں ان کے مال کی کھپت ہو .
(۱۹۴۳ ، پندرہ روزہ 'آجکل ، دہلی ، یک جون ، ۴)
قیس و موامق کو مرے ساتھ گرفتار نہ کر
اے جنوں خانۂ زنجیر کو بازار نہ کر
بے اذن ملک کو بھی یہاں بار نہیں ہے
سادات کا گھر ہے کوئی بازار نہیں ہے
یہاں قیمت نہیں دیتا ہے جنس دل کی بھی کوئی
بھلا حسرت بتا اس جنس کا بازار کیسا ہے
قیمت نیم نگہ دیتے ہیں عاشق دو جہاں
کر دیا عشق نے یہ خنکی بازار کا تیز
ترے دیدار کی مستی جو غالب منج پہ ہوتی ہے
تو بے سدھ ہو کدھیں خلوت بازار پکڑیا ہوں
رات دن صحبت اغیار رہا کرتی ہے
بزم انھیں لوگوں سے بازار رہا کرتی ہے
داد پائے جا بھلا کیا حشر کے بازار سے
نام قاتل چھپ سکے گا زخم دامن دار سے
سارے بازار نے اپنی آنکھوں سے دیکھا .
( ۱۰۳۶ ، گرداب حیات ، ۵ )