جنہو نے دل مسافر سوں لگایا
انہوں سب نے جتم رو رو گنوایا
دل لگا اپنا خدا سے میری جاں
اس سوا ہے کون تیرا مہرباں
دل کو اس بے مہر سے ہم نے لگایا ہے عبث
مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث
جگہ دل لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
میں نے دل کیا لگایا تھا ، دل خود ہی لگ گیا تھا
(۱۹۱۶، خطوطِ اکبر، ۵۷)
تم تو ایک ہندو لڑکی سے دل بھی لگا چکے ہو
( ۱۹۷۰، خاکم بدہن، ۸۵)
تہذیب و شایستگی حاصل کرنے پر دل لگا دیں گے تو سب کچھ ہم سے ہو سکے گا
(۱۸۷۶، تہذیب الاخلاق، ۲ :۵۵)
طالب علم نے وہاں سے جاتے ہو ئے کہا ... ” میں پھر فلسفے سے دل لگاؤں گا اور مابعد الطبیعات کا مطالعہ کروں گا “
(۱۹۴۱، افادی ادب، ۵۲)