رہوں کیوں متقی ہو تج پرم کا چسکا لگ
نپاسی پارسائی سوں کدھر پکڑیاں ہوں میخانہ
پھر پھر ولی ترے کن آتا ہے جیوں کے سائل
تیری مٹھی زباں کا پایا ہے جب سوں چسکا
زاہد مری شراب کے چسکے ہی اورہیں
توبہ ، مۓ طہور میں ایسا اچڑ کہا
یار باشی میں تو وہ مزا ہے کہ جہاں اس کا چسکا پرا پھر نہیں چھوٹتا.
(۱۹۰۰، شریف زادہ ، ۱۲۱).
اب لڑکی کی لہو پانی ایک کرنا بیکار ہے پہلے تو اُس کو چسکا اکیلے رہنے کا ہر کہیں پھر نے کا ڈال دیا آج رو کے کیا ہوگا.
(۱۸۸۲، طلسم ہوش رہا ، ۱ : ۶۴۲ ).
ملا صاحب کو مانگنے کا ایسا زبردست چسکا پڑگیا تھا کہ ہر چند چاہا کہ نہ مانگوں مگر باز نہ رہ سکے.
( ۱۹۲۵، حکایات لطیفہ، ۱: ۷۱ ).
شاعری کا چسکا رکھتے ہیں اور زمانہ کے تیور پہچانتے ہیں.
(۱۸۹۳، مقدمہ شعر و شاعری، ۲۲۲ ).
تحقیق کا چسکا شروع ہی سے تھا.
( ۱۹۳، چند ہم عصر، ۳۵۳ ).
اف : پڑنا، ڈالنا، رکھنا، لگنا، ہوجانا.