خدا کی مار اس چتیرے کو کیا اوڑھی صورت کی چتائی کی ہے.
(۱۹۷۴، کاشف الاسرار، ۷۳)
مندر میں چتر سب میرے ہاتھ کا
چتر من چتیرا ہوں میں ذات کا
نقش کسو کا دروں سینہ گرم طلب ہیں ویسے رنگ
جیسے خیالی پاس لیے تصویر چتیرے پھرتے ہیں
چتیروں کی ریت ہے کہ جوچیز تصویر میں بیان نہ ہوسکے اس کا اظہار دوسرے طریقے سے کردیتے ہیں.
(۱۹۳۸، شکنتلا، اختر حسین رائے پوری، ۱۵۴)
اگر کسی مصورکو یہ علوم نصیب نہیں ہوئے ہیں تووہ مصور نہیں رنگ ساز یا چتیرا ہے.
(۱۸۹۷، کاشف الحقائق، ۱، ۲: ۴۱)