کب شب گیسوئے مشکیں کی سیاہی کم ہوئی
تیری افشاں نے ستارے گو کہ چمکائے بہت
سرکشوں کو دھمکایا سلطنت کو پھر چمکایا.
(۱۹۴۶، سرور سلطانی، ۵۱)
اس غیر متوقع امداد سے اس نے اپنے کاروبار چمکایا اور خوب نفع کمایا.
(۱۹۴۶، شیرانی، مقالات، ۱۰۹)
جھوٹی اور بے اصل باتوں کو چمکانا اور زمین و آسمان کے قلابے ملانا اور مبالغہ و اغراق کا طوفان اُٹھانا فی الحقیقت شاعر کا کمال نہیں ہے.
(۱۸۹۷، یادگارِ غالب، ۷۹)
پہلے بادشاہوں کی بھلائیوں کو ہمیشہ چمکایا اور ان کی برائیوں کو چھپایا ہے.
(۱۹۲۰، اردو گلستان، ۷۱)
زرق برق آپ کی بے وجہ نہیں
درد دل کو مرے چمکائیے گا
اس نے راگ میں رنگ کو ملایا عشق کو چمکایا.
(۱۹۲۴، اختری بیگم، ۲۵۸)
چمکاتے ہی جاتا ہے زمیں سے جو فلک پر
سب کہتے ہیں خورشید درخشاں ہے یہ گھوڑا
ایرج نوجوان نے ایک سوار کو مار کر گھوڑا لیا اور چمکا کر قید خانے سے نکلے.
(۱۹۰۰، طلسم خیال سکندری، ۲: ۱۳۲)
جزوی جزوی باتوں پر بادشاہ اور وزیر میں اختلاف پڑا اس پر یاروں کا چمکانا غضب.
(۱۸۸۳، دربار اکبری، ۲۰۵)
چچا کسی کی دھونس میں نہیں آتے، اول تو بولتے ہی نہیں اگر کوئی اُنہیں چمکا دے تو وہ لچھے دار باتیں کرتے ہیں کہ مزا آجاتا ہے.
(۱۹۶۷، اجڑا دیار، ۱۱۲)
خواب میں اون کے لبوں کے جو لئے تھے بوسے
سو وہ بیدار ہو چمکانے لگے ہاں ہم کو
وہ میرے خواب میں بھی آئے چمکاتے ہی دھمکاتے
ستم دیکھو کہ اس پر ہاتھ میں خنجر بھی عریاں تھا