ہر یک اپنی اپنی فہم سوں پکڑتے ولیکن اس کا خواست نہ جاتے.
(۱۴۴۰، شمس العشاق، ۱۰۴)
سنکر ہووا گہرا شاد
پائی جیو کی خواست مراد
(۱۵۰۳، نوسرہار(اردوادب، ستمبر، ۱۹۵۷: ۷۱)).
عاشق سمجھتا ہے کہ کیا معشوق کی خواست ہے.
(۱۶۳۵، سب رس، ۲۲)
دیکھے جب نبی اعتقاد اس کا راست
کہ دھرتا ہے ایمان لیانیکا خواست
(۱۶۸۸، ہدایات ہندی (ق)، ۵۳)
۲. گزارش، عرض، التماس، التجا، سوال.
(جامع اللغات)
[ف: خواستن- چاہنا، کا اسم مصدر]
اہم اطلاع
اردو لغت بائیس ہزار صفحوں پر مشتمل ، دو لاکھ چونسٹھ ہزار الفاظ کا ذخیرہ ہے . اسے اردو زبان کے جیّد اساتذہ نے 52 سال کی عرق ریزی سے مرتب کیا ہے .
زیر نظر ویب سائٹ انسانی کاوش ہے لہذہ اغلاط کے امکانات سے مبرا نہيں ، آپ سے التماس ہے کہ اغلاط کی نشان دہی میں ہماری معاونت فرمائیں .
نشان دہی کے لیے ہماری ویب سائٹ پر رابطہ کے ان باکس میں اپنی رائے سے آگاہ کریں .