میں نے اُدھار کا کام ہی نہیں رکھا.
( ۱۸۷۴ ، مجالس النسا ،۱ : ۷۹ )
ہے بات کچھ بنی ہوئی بازار حسن میں
مجھ کو گراں ہے مفت بھی سودا ادھار کا
صرف ساقی کا قرضدار ہوں میں
اور مجھ پر ادھار کس کا ہے
چاروں طرف سے گھیر کے لی خوب ہی خبر
لوگوں نے مار پیٹ میں رکھا نہ کچھ ادھار
ساقی ہے مغنّی ہے چمن ہے مے ہے
اس نقد پہ سو اُدھار قرباں کردے