دگیری اونے لک اس کو صمصام
اتھی حضرت سلیماں کے وہ قمقام
نیم بسمل ہے بھواں تیری سیں دل
کند ایتا کیوں ہے اگر صمصام ہے
غرض حمزہ نے وار اس کا بچا کر
لگائی کھینچ کر صمصام اس پر
اگر ٹک گھور کے دیکھے تو عاشق جی سے جاتا ہے
عبث ناوک لگا ہاں ہاتھ میں صمصام لیتے ہیں
یاں زیست کا خطرہ نہیں ہاں کھینچے تلوار
وہ غیر تھا جو دیکھ کے صمصام ڈرے تھا
اے کہ کھینچے ہوئے اسلام کی صمصام ہے تو
آج کل سب سے بڑا غازیِ اسلام ہے تو