تقدیر اور اسباب کی سببیت میں کُچھ منافات نہیں ہے .
(۱۸۷۹ ، مقالاتِ حالی ، ۱ : ۹۴).
خَلَقَ لَکُم میں حرف لام سببیت بتلانے کے لئے آیا ہے کہ تمہارے سبب سے یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں .
(۱۹۶۹ ، معارف القرآن ، ۱ : ۱۱۸).
ب واسطے سبب اور بیچ اور سگند کے آتا ہے اس کئیں بائے سببّیت کہتے ہیں ، بایں مکان یعنی بیچ اس مکان کے .
(۱۸۵۵ ، تعلیم الصبیان ، ۲۸).
سببّیت سے ہم ایک شے کا موقوف ہونا دوسری شے پر سمجھتے ہیں ... عِلّت ایسی سمجھے جائے کہ وہ زمانے کے لحاظ سے ہمیشہ دوسرے رکن معلول پر مقدّم ہو .
(۱۹۲۹ ، مفتاح الفلسفہ ، ۲۱۲).
مسئلۂ سببیّت سے جس کی تعبیر کی جاتی ہے ان دونوں مسئلوں میں تطبیق دینا کچھ بھی مشکل نہ ہو گا .
(۱۹۵۶ ، مناظر احسن گیلانی ، عبقات ، ۲۸۹).