لِباس خسروانی کر چھندوں نے سِیم بر نِکلے
سراسر ناز کا لشکر برابر بھار کر نِکلے
جو شاطیر شہ کا دِیا یوں خَبر
عطارد سراسر سنیا کاں دَھر
ولی شعر میرا سراسر ہے درد
خط و خال کی بات ہے خال خال
سکوں یاں کا دیکھا سراسر شتاب
چلے جاتے ہیں کوہ جیسے سحاب
تیرے رہ رہ کے دمکتے ہوئے چہرے کی قسم
شجرِ طُورِ تجلّی ہے سراسر سہرا
سکول کے بچّوں کو صبح سویرے بندے ماترم کا گیت گانے پر مجبور کیا جاتا جو اسلامی طرزِفکر کے سراسر منافی تھا .
(۱۹۸۶ ، مسلمانانِ برصغیر کی جدوجہد آزادی میں مسلم لیگ کا کردار ، ۲۳) .