عاشق کو کھجایا ہے پھر چھاتی لگاتا ہے
اس شوخ ستم گر کا ہے پیار بہت تحفہ
میرے کھجانے کے لیے ایک ایک دانہ کو بھی بدیر اوٹھا کر کھانے لگی.
(۱۸۴۲، الف لیلہ ، عبدالکریم ، ۴: ۴۲۵).
مکّے میں مومناں جو تھے اُن کو کھجانے لگے.
(۱۸۶۰، فیض الکریم، ۱۴۶).
آپ ریختہ کی سگی جورو ریختی کہہ کے اُسے کھجاتے ہیں.
(۱۹۲۹، اودھ پنچ ، لکھنؤ ، ۱۴، ۴۵: ۴).
اس گیان کوں گیان ہیں رجھاوے
اس گیان کوں گیان ہیں کِھجاوے
گاندھی غریب تو پھر بھی لنگوٹی باندھے رہتے ہیں ... اسی وجہ سے تم انہیں کھجاتے ہو.
(۱۹۳۱، اودھ پنچ ، لکھنؤ، ۱۶، ۸: ۳).