ساتھ اس کے آواز نقّارے اور قرنائے کی بھی آنے لگی.
(۱۸۰۵ ، آرائش محفل ، افسوس ، ۲۴۵).
ہر برج میں ایک ایک حبشی قرنا منھ سے لگائی ہوئے کھڑا ہے.
(۱۸۹۰ ، طلسم ہوشربا ، ۴ : ۲۷۶).
شیروں کو طبلِ جنگ نے روپوش کردیا
قرنا نے صور پھونک کے مدہوش کردیا
اس کو اُسی تقریب کی صدارت کرنی پڑی جس میں قرناؤں کی گونج میں ایک نئے ملک کے قیام کا اعلان کیا گیا.
(۱۹۸۴ ، مقاصد و مسائل پاکستان ، ۱۲).
استحقاق تمکن خاوند کا ہے وطی پر عورت سے اور وہ حاصل ہے مجزومہ اور مجنونہ اور برصاء سے اور اسی طرح رتقاء اور قرنا سے.
(۱۸۶۷ ، نورالہدایہ ، ۲ : ۷۹).