کجی ابرو کی جب غصّے سے دیکھے
کماں چڑھتی ہے جیوں آتش کے سینکھے
پیم و امید میں ہےجان اون آنکھوں کے حضور
راستی پر ہیں نگاہیں تو کجی پر پلکیں
ان کی شخصیت میں کجی آگئی.
سِدی باٹ چل توں اگر راستی
اتال چھوڑ دے سب کجی کاستی
گرہ زلف کی کھول ، لیتےہیں جی
پھر اس بعد لاتےہیں بھوں پر کجی
کَجی اُس کی جو میں جتانے لگا
مجھ سِیدھیاں وہ سُنانے لگا
اُس کا سبب کبھی ان کی فطرت ہوتی ہے جو کجی کی طرف مائل ہے.
(۱۸۹۹ ، حیات جاوید ، ۲ : ۳۷۴).
وہ ان ہی سے لڑتا ہے اور انہی سے کجی رکھتا ہے.
(۱۹۷۶ ، توازن ، ۷۵).