اول ہور آخر تیرا نانوں ہے
تیری امتاں پر تیرا چھانوں ہے
ہر نانوں کے تیں نشان تو ہے
ہر چھانوں کون آسمان توں ہے
وہ کیلوں کی اور مولسریوں کی چھانوں
لگی جائیں آنکھیں لیے جس کا نانوں
دعا دی کہ بار الہا اس مکان کے بنا کرنے والے کے گناہ بخش اور اس کی روح کو فردوس کی چھانوں میں جگہ دے.
( ۱۸۰۳ ، گنج خوبی ، ۸۲ )
حبش میں کوئی ہمارے ملک کا . . . آدمی جا نکلے تو اس کو مبروص سمجھ کر اس کی چھانوں سے دور بھاگیں .
( ۱۹۰۷ ، اُمہات الامہ ، ۲۳ )