عورت منھ پھیرے بیٹھی رہی عمرو نے کچھ روپیے کھنکھنائے عورت آواز سن کر فرش ہو رہی ہے.
( ۱۸۹۲ ، طلسم ہوشربا ، ۶ : ۵۷۷ )
صبح کو وہ دوالی کا اقبال مند مسلمان مجھے جیب میں کھنکھناتا ہوا بازار میں آیا.
( ۱۹۲۳ ، مضامین شرر ، ۱ ، ۲ : ۶۵۴ )
چائے کے برتن دھیرے سے کھنکھے اور وانیا کی آنکھ کھل گئی.
( ۱۹۷۰ ، قافلہ شہیدوں کا ( ترجمہ ) ، ۱ : ۲۸۹ )
اس کی روز افزوں ترقی کو دیکھ کر پیٹرِ اعظم کی عظام رمیم قبر میں کھڑ کھڑائیں اور کھنکھنائیں گی.
( ۱۹۰۴ ، اپریل فول ، ۲۷ )
دیکھی جو نرم و نازک اس حسن کی کلائی
منھیار بن کے چوڑی ہاتھوں میں کھکھنائی
ماتھے اور کان کے بے شمار پیتل کے زیور کھنکھنائے.
( ۱۹۴۶ ، آگ ، ۴۰ )