نظر توں کرے تو موا جیو اٹھے وضو بن جو تج ناؤں لے سر تٹے
دیے شاہ نے شاہزداے کے ناؤں مشائخ کو اور پیرزادوں کو گاؤں
اگر اس گروہ کی ہر ایک قوم کا ناؤں اور راہ و رسم کا بیان عبادتوں کا تمام عنوان لکھنے میں آتا تو قصہ بہت بڑھ جاتا ۔
(۱۸۰۵ ، آرائش محفل ، افسوس ، ۴۸) ۔
اگر کسی واقعہ کو قصہ کے پیرائے میں لانا ہوتا ہے تو ناؤں گاؤں ٹھاؤں دوسرے دوسرے کر دیتے ہیں
(۱۹۵۹ ، محمد علی ردولوی ، گناہ کا خوف ، ۴۴۰) ۔
’’ ہم جس دن منزل تک پہنچے
اِک دُوجے کے دِل تک پہنچے
تب اِک ساتھ لیا جائے گا ، تیرا میرا ناؤں ‘‘
دنیا میں آنا ہے ناؤں چھوڑ جانا ہے ۔
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۱۳۷) ۔