اللہ اپنے احکام تمہارے لیے واضح کرتا ہے ، شاید کہ تم شکر کرو ۔
(۲۰۰۳ ، مجموعہء قوانین اسلام ، ۷ : ۴۲)
مجھ حال جو ہے سب سوتج ہے اے یار واضح
ہور تج کرم نے مج ہے تج کاربار واضح
لب ساحل ہوئے کشتی پر اسوار
مجھے حال اون کا واضح تھا نہ زنہار
تاریخ نے یہ نکتہ قوموں پہ کیا واضح
جو عیش بقا چاہے سیکھے وہ فنا ہونا
یہاں تو شاعری کے بارے میں ایک بہت واضح نقطہء خیال موجود ہے ۔
(۱۹۶۳ ، شاعری اور شاعری کی تنقید ، ۳۵)
یہی وہ چیز ہے جسے اقبال نے خون جگر کی اصطلاح سے واضح کیا ہے ۔
(۱۹۹۱ ، زمزمہء درود ، ۲۱)