بندگان خدا کی جان بچانے میں اس درجہ شجاعت اور ہمدردی ظاہر کی تھی ۔
(۱۸۸۰ ، فسانہء آزاد ، ۲ : ۵۲) ۔
جس کی مصیبت سے شہر بھر کو ہمدردی تھی ۔
(۱۹۱۹ ، جوہر قدامت ، ۱۷۱) ۔
شکست میں فتح کے اسباب مہیا کیے جاتے ہیں اور دشمن سے ہمدردی کرا دی جاتی ہے ۔
(۱۹۵۲ ، تاریخ مشائخ چشت ، ۱۲۷) ۔