دل صاف ، زباں صاف ، سخن صاف ہے میرا
موتی کی لڑی ہے کہ مسلسل مری تقریر
مسلسل اور غیر منقطع مصائب و حوادث کو اس طرح برداشت کرتا کہ کبھی پیمانہء صبر لبریز نہ ہونے پائے ، سخت مشکل ہے ۔
(۱۹۱۴ ، سیرۃ النبیؐ ، ۲ : ۲۸۳)
۔ لشکر میں اضافہ کچھ ہند والوں سے کیا گیا ، کچھ باہر والوں کی مسلسل آمد سے ہوتا رہا ۔
(۱۹۴۷ ، فرحت ، مضامین ، ۳ : ۷)
پانچ چھ دن سے مسلسل جھڑی لگی ہوئی تھی ۔
(۱۹۹۵ ، قومی زبان ، کراچی ، جون ، ۷۴)