گرچہ بہتوں کو میں مسل مارا
پر مجھے کھٹملوں نے مل مارا
نالوں سے مجھے باغ میں سونے نہیں دیتی
بلبل کی مسل ڈالیے منقار کسی طور
مدّعا یہ ہے کہ دل کو ترے پامال کریں
اُس نے بھیجا ہے جو مٹھی میں مسل کر کاغذ
حسینہ پھر اونگھ گئی اور عزیز نے چپکے سے اس کی کان کی لو مسل دی ۔
(۱۹۵۲ ، ہوائی ، ۱۳) ۔
جلتے ہوئے ٹوٹے کو ایش ٹرے میں بڑی بے دردی سے مسل مسل کے بجھانے کا مظاہرہ کرنے لگا ۔
(۱۹۹۸ ، کہانی مجھے لکھتی ہے ، ۱۸۱)
آرزو کم بخت نے کی تھی خرامِ ناز کی
دے دیا اوس نے مجھے دل کو مسل کر زیرپا
اے ہمارے پروردگار! شیطان اور آدمی جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا ایک نظر ان کو ہمیں بھی تو دکھاؤ تا کہ ہم ان کو اپنے پیروں تلے مسل ڈالیں ۔
(۱۸۹۵ ، قرآنِ مجید (ترجمہ) ، نذیراحمد ، ۲ : ۷۶۷)
تھانیدار نے رجسٹر بند کیا ، سگریٹ جوتے سے مسلی ۔
(۱۹۹۵ ، نگار ، کراچی ، ۷۹) ۔
بنا ہی چھوڑیں ہیں آخر وہ جامِ جم دل کو
مسلتے رہتے ہیں جو لوگ دم بہ دم دل کو
نورالدہر نے گھوڑے کو رانوں میں مسلا کہ ہڈیاں ٹوٹ گئیں ۔
(۱۹۰۰ ، طلسم خیال سکندری ، ۲ : ۳۱۲)
کٹر دل کو مار ، ظالم غصہ کو مسل ، نخوت کو غارت اور خودبینی کو دُور کر ۔
(۱۹۱۹ ، جوہر قدامت ، ۶۳) ۔
ظلمت کی بلا سروں سے ٹل جائے گی
اِس شب کو سِحر آکے مَسل جائے گی